1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخپاکستان

’موسم والا‘ کا مہتاب رام اور صادقیہ نہر کا ’منیاں والا پل‘

31 مئی 2024

دسمبر کی روشن دوپہر تھی۔ دھند چھٹ چکی تھی اور اجلی اجلی دھوپ نے گیہوں کے پودوں پر پڑی اوس کے قطروں کو خوب جگمگا دیا تھا۔ یوں دکھائی پڑتا تھا، جیسے گندم کے کھیتوں میں آج ننھے ننھے سورج اُگ آئے ہوں۔

https://p.dw.com/p/4gSky
احمد نعیم چشتی انگریزی ادب کے استاد ہیں
احمد نعیم چشتی انگریزی ادب کے استاد ہیںتصویر: privat

احمد اور میں منچن آباد سے بہاول نگر جاتی سڑک کنارے، زنگ آلود ریلوے پٹڑی پر کھڑے سنسان اور اجڑے ہوئے ''چبھیانہ ریلوے اسٹیشن‘‘ کو دیکھ کر پلٹ رہے تھے۔ فورڈواہ نہر کا پُل پار کر کے ہمارا اسکوٹر سید علی گاؤں کی طرف دھیرے دھیرے بڑھ رہا تھا۔

 سڑک کے کنارے کنارے ایک بزرگ، جھکی کمر کے ساتھ، مضبوط لکڑی زمیں پر ٹیکتے چلے جا رہے تھے۔ مجھے لگا کہ انہوں نے سنتالیس کے واقعات کو ضرور دیکھا ہو گا، ہم رک گئے۔ 

وہ سید علی گاؤں کے رہائشی بابا وریام تھے۔ سنتالیس کے بٹوارے میں گبھرو جوان تھے اور اسی گاؤں میں رہتے تھے۔ مال ڈنگر فورٹ نہر (فورڈواہ کینال) کے آس پاس چراتے تھے اور کچھ ہندو سکھ چرواہوں کے ساتھ دوستی بھی تھی۔ بابا وریام نے سر پر مٹیالے رنگ کی بڑی سی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ ٹوپی کے اوپر سفید رومال کی پگڑی بھی باندھ رکھی تھی، جو اب میلی ہو رہی تھی۔ سفید لمبی داڑھی تھی اور کچھ بالوں کی نوکوں پر ہلکا سا رنگ چڑھا تھا۔ ضرور کچھ عرصہ قبل داڑھی کو مہندی سے رنگا ہو گا۔

بوڑھی آنکھوں پر موٹے شیشوں والی عینک لگا رکھی تھی۔ سفید دھوتی کرتے پہ سیاہ رنگ کی ڈھیلی ڈھالی جرسی پہنی تھی۔ چہرے پہ پھیلی ان گنت جھریاں پتا دیتی تھیں کہ عمر کی نو دہائیاں بتا چکے تھے۔ 

بھلے آدمی تھے، رک گئے۔

 میں نے سنتالیس کا پوچھا تو داستاں سنانے لگے۔ ہم نے ان کی گفتگو موبائل میں ریکارڈ کرنا شروع کر دی۔

سڑک کے اطراف دور دور تک پھیلے گندم کے کھیت تھے۔ گندم کی سبز کونپلوں نے زمیں پر مخملی قالین بچھا رکھا تھا۔ قالین میں شبنم کے موتی جڑے تھے۔ 

سڑک سے گزرتے موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں کا شور تھا۔ پاس سے اسکوٹر گزرتا تو پڑ پڑ پڑ کی آواز بہت اونچی ہوتی، پھر دور تک مدھم ہوتی جاتی۔

بابا وریام نے بتایا کہ ان کا گاؤں، سید علی (منچن آباد، ضلع بہاول نگر) مسلمانوں کا گاؤں تھا۔ آس پاس ڈھاریوں پہ ہندو اور سکھ آباد تھے، جو کھیتی باڑی کرتے تھے۔ گاؤں میں اکا دکا ہندو پریوار بستے تھے، جو دکان دار تھے۔

چھ بھادوں کو 'لڑ دھڑ‘  شروع ہو گئی۔ لوگ ہندوؤں اور سکھوں کے گھروں پر ٹوٹ پڑے تھے اور سامان لوٹنے لگے تھے۔ لٹنے والے گھروں کے باسی جانیں بچا کر ابھرتے سورج کی طرف بھاگ رہے تھے۔ ہم نے مال ڈنگر ان کی فصلوں میں چھوڑ دیا تھا۔ فورڈواہ کے کندھوں پر بیل گاڑیوں کی قطاریں تھیں۔ لٹے پٹے، اجڑے قافلے حیراں حیراں، پریشاں، بے یقینی کے عالم میں لڑھکتے جا رہے تھے۔ گڈوں (بیل گاڑیوں) کے لکڑی کے پہیے بین کرتے جاتے تھے۔

 بابا وریام نے گاؤں میں بستے چند لوگوں کے نام بھی بتائے، جو اجڑے قافلے کے مسافر ہوئے تھے۔ موہنا، گریا، بکھو، مہرو، جواہری اور گاہری۔ وہ سبھی سید علی سے نکل گئے۔ گھر، زمیں سب چھوٹ گئے،جو اپنا تھا وہ سب پرایا ہوا۔

 بابا وریام کے چرواہے دوست بھی اپنی گائیں، بھینسیں، بھیڑ بکریاں چھوڑ چھاڑ کر رات کے اندھیرے میں اپنی بستی سے دم سادھے نکل گئے۔ نا جانے گھپ اندھیرے میں راستہ بھی سجھائی دیا یا نہیں۔ رب جانے بھادوں کے حبس میں مسافروں کا کتنا دم گھٹا، کتنی پیاس سہنا پڑی۔ رب جانے طلوع ہوتے سورج کا گرد آلود چہرہ دیکھ پائے یا پہلے ہی ان کے جیون کا سورج رات کے اندھیرے ہی میں کہیں غروب ہو گیا۔ رب ہی جانے! 

سید علی کا ایک دکان دار تھا گراں دتا۔ حالات بگڑے، دنگے فساد شروع ہوئے، سبھی غیر مسلم سید علی سے جانے لگے۔ گراں دتا نے اپنا گاؤں سید علی نا چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ اس کا خاندان چلا گیا وہ نہیں گیا لیکن مذہب بدل لیا۔

 گراں دتا سے غلام علی ہو گیا۔ سید علی کے بازار میں چھوٹی سی دکان چلاتا رہا۔ اس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ بہت سال پہلے وہ فوت ہو گیا تھا۔ اس کی موت پر بھی اس کے خاندان کا کوئی فرد موجود نا تھا۔ عمر بھر بھی کسی رشتہ دار سے نہیں ملا تھا۔ گراں دتا سید علی میں اپنی دکان میں ہی رات کو دیا جلا کر سو جاتا ہو گا۔ دیے سے اٹھتے ننھے سے شعلے کو تکتا تکتا وہ روز، پل پل مرتا ہو گا۔ رات بھر دیے کی لو پر ہی اس کی چتا جلتی رہتی ہو گی۔

ہم جہاں کھڑے تھے، وہاں سے سید علی گاؤں کے قبرستان میں لگے پیڑ صاف دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں سے کسی ایک پیڑ کے نیچے گراں دتا کی قبر ہو گی۔ وہی گراں دتا، جو سنتالیس میں اپنوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گیا تھا اور اسے ایک جیون میں کتنے ہی آگ کے دریاؤں سے گزرنا پڑا ہو گا۔ 

بابا وریام ایک کے بعد ایک المناک واقعہ سناتے جا رہے تھے۔ ہم پاس سے گزرتے، شور مچاتے، دھواں چھوڑتے سکوٹروں اور رکشوں کی پڑ پڑ سے بے خبر سے ہو گئے تھے۔ دھوپ خوب چمک رہی تھی۔ پاس ہی فورڈواہ نہر کا پانی ڈھلتے سورج کے رخ بہتا ہی چلا جا رہا تھا۔ 

بابا وریام نے 'سید علی‘ سے مغرب میں بسے پڑوسی گاؤں 'موسم والا‘  کے ہندو نمبردار، بڑے زمیندار مہتاب رام کی دل خراش داستاں چھیڑ لی تھی۔ مہتاب رام ایک نامور اور مال دار زمیندار تھا۔ سید علی کے بڑے زمیں دار سید جلال شاہ کا دوست تھا۔ سنتالیس کے بھادوں میں، جتنا حبس آسمان سے برس رہا تھا، اس سے کہیں زیادہ حالات زمیں پر بگڑ گئے تھے۔

مہتاب رام نے اپنے خاندان کے سبھی افراد کو فورڈواہ اور ایسٹرن صادقیہ نہریں پار کروا دیں اور انڈیا بھیج دیا۔ جب حالات سنبھلیں گے، موسم سازگار ہو گا تو اپنی بستی 'موسم والا‘ میں لوٹ آئیں گے، یہی سوچا ہو گا مہتاب رام نے۔ اسی لیے اس نے اپنی شان دار حویلی، مال ڈنگر اور زمینوں کی دیکھ بھال کے لیے اپنے گاؤں ہی میں ٹھہرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

مجھے مہتاب رام کی حویلی یاد آ گئی۔ دو سال قبل احمد اور میں موسم والا گاؤں میں گئے تھے۔ ہم نے سنا تھا وہاں کسی ہندو خاندان کی پرانی حویلی موجود ہے۔ تقریبا ایک صدی گزر جانے کے بعد بھی حویلی کی شان و شوکت کے کچھ گرد آلود سے آثار ابھی باقی تھے۔

 حویلی کے دو بڑے عالی شان دروازے موجود تھے۔ مرکزی عمارت کا دروازہ قابل دید تھا۔ دروازے سے ملحق آٹھ دل کش جھروکوں، دیدہ زیب جالیوں اور محرابوں، سنگ مرمر پر تراشے رنگ برنگے بیل بوٹوں اور پتھر پہ کھلی پھلواڑیوں نے ہمیں حیراں کر دیا تھا۔ لکڑی کا دروازہ کسی ماہر دستکار کی شاہکار تخلیق تھا۔ دروازے کے کواڑ نا جانے کب سے بند پڑے تھے اور بڑا سا زنگ آلود تالا لگا ہوا تھا۔ حویلی کے در و دیوار ٹوٹ پھوٹ چکے تھے اور جو بچے تھے وہ بھی بس کچھ ہی عرصے کے مہمان تھے۔ نا جانے کب سے ویران پڑی تھی۔

'سرانواں بودلہ‘ (پنجاب، انڈیا) گاؤں سے ہجرت کر کے آنے والے عطا اللہ بودلہ کو یہ حویلی الاٹ ہوئی تھی۔ وہ بھی اسے سنسان چھوڑ کر کہیں اور جا بسے تھے۔ حویلی کے کلر زدہ صحن سے دھول اڑ رہی تھی اور سونے آنگن میں بیری کا ایک درخت سر جھکائے کھڑا تھا۔ دھول مٹی سے مٹ میلی ہوئی یہ عمارت بہت اداس نظر آ رہی تھی۔

سنگ مرمر پہ بنے پھول گرد میں اٹے تھے، پژمردہ سے دکھائی دے رہے تھے، جیسے بھادوں کے حبس میں ان کا دم گھٹ رہا ہو۔

اسی عالی شان حویلی میں، اسی 'موسم والا‘ بستی میں مہتاب رام نے رکنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ موسم والا کا موسم یوں دیکھتے ہی دیکھتے اتنا بدل جائے گا کہ وہاں رہنا بھی محال ہو جائے گا۔

 مہتاب رام نے 'سید علی‘  میں اپنے دوست سید جلال شاہ کے پاس آکر پناہ لے لی۔ حبس مزید بڑھا، دم مزید گھٹنے لگا تو اس نے اپنے دوست سے کہا وہ اسے صادقی نہر (ایسٹرن صادقیہ کینال) کا 'منیاں والا پل‘  پار کروا دے تو عمر بھر احسان نا بھولے گا۔ 

کہانی سناتے سناتے بابا وریام کھانسنے لگا تھا۔ کھانسی ایسی چھوٹی کہ رکنے کا نام ہی نا لے۔ جب کھانسی کا طوفان تھما تو بابا وریام نے کہانی کی ڈوری وہیں سے پکڑ لی، جہاں مہتاب رام زندگی کی ڈوری تھامے خوف سے ہانپ رہا تھا۔ 

اپنے ہی علاقے میں، اپنے ہی دوست کے پاس یوں بے بس ہوئے مہتاب رام کو دیکھ کر ضرور سید جلال شاہ کو دکھ ہوا ہو گا۔ اس نے اپنے چار آدمیوں کو کلہاڑی اور ڈانگ سوٹے دے کر بھیجا کہ وہ مہتاب رام کو منیاں والا پل بحفاظت پار کروا آئیں۔ کس دل سے مہتاب رام اپنے گاؤں، دوست، زمیں، گھر سے ہمیشہ کے لیے دور جانے کے لیے نکلا ہو گا۔ قدم کیسے اٹھتے ہوں گے اس کے؟ اسے سب کچھ کھونے کا غم تھا یا شاید اب صرف جان بچانے کی فکر ہو گی کہ کسی طرح منیاں والا پل پار ہو تو جان بچے۔ 

ایسے خوف اور بے یقینی کے حالات میں سید علی کے بازار میں دکان پر بیٹھا گراں دتا اب غلام علی تو ہو گیا تھا لیکن خدا جانے اس کا وقت کیسے کٹا ہو گا؟ جب دنگے فساد دیکھتا سنتا ہو گا تو دل میں رام رام کی مالا جپتا ہو گا اور زبان پہ اللہ اللہ کا ورد کرتا ہو گا؟ 

آخر کار مہتاب رام اور اس کے محافظ سید علی سے نکل کر، فورڈواہ نہر کا پل گزر کر، خوش حال سنگھ گاؤں کے کھیتوں کی پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے، لوگوں سے بچتے بچاتے، سات میل کا سفر پیدل طے کر کے ایسٹرن صادقیہ نہر کی پل پر پہنچ گئے۔

بھادوں کے شدید حبس میں وہ ضرور پسینے میں شرابور ہو گئے ہوں گے۔ اس سات میل کے سفر میں مہتاب رام پر خوف سے بھرے بھادوں کے کتنے ہی موسم گزر گئے ہوں گے۔ 

پل کے پار 'منیاں والا‘ گاؤں دکھائی دے رہا تھا۔ اس گاؤں سے پرے، کچھ ہی فاصلے پر نئی کھنچنے والی سرحد تھی۔ مہتاب رام اب محفوظ مقام تک پہنچ چکا تھا۔ بھادوں کے حبس میں بھی ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا سا محسوس ہوا ہو گا۔ چہروں پر دہکتے پسینے کے قطرے ٹھنڈے پڑ گئے ہوں گے۔ 

اب بابا وریام کی آواز اونچی ہو گئی تھی۔ کہانی میں روانی آ گئی تھی اور سچی کہانی کا بے بس کردار مہتاب رام منیاں والے پل پر پہنچ چکا تھا۔

بابا وریام نے چند ہی فقروں میں کہانی لپیٹ دی۔ بتایا کہ وہ جب منیاں والے پل پر پہنچے تو انڈیا سے آتے ہوئے مسلمان مہاجرین کو دیکھا۔ وہ بے حال، اجڑے ہوئے، اپنوں کے مر جانے کا سوگ چہروں پہ ملے آ رہے تھے۔ کچھ دنگوں میں شدید زخمی ہو گئے تھے اور زخموں سے خون رس رہا تھا۔ کچھ خواتین کو دیکھا، جن کے سینے کاٹ دیے گئے تھے۔ 

یہ سب دیکھ کر مہتاب رام کے مسلمان محافظوں کے خون کی گردش تیز ہو گئی۔ آنکھوں میں خون اتر آیا۔ منیاں والے پل کے عین اوپر ہی کلہاڑی کے وار کر کے مہتاب رام کو مار دیا اور لاش اٹھا کر صادقیہ نہر میں پھینک دی۔

 موسم والا کا زمیندار مہتاب رام اپنے دوست کی اسی کلہاڑی سے مارا گیا، جو اس کی حفاظت کے لیے بھیجی گئی تھی۔ 

مہتاب رام نے کلہاڑی کھا کر شکایت اور التجا بھری نظروں سے اپنے بے درد محافظ کی طرف تو دیکھا ہو گا۔ انہی بے بس نگاہوں نے خون آلود کلہاڑی کو بجلی کی سی تیزی سے اپنے سر اور چہرے کی طرف دوبارہ آتے دیکھا ہو گا۔ 

 مہتاب رام اپنے خاندان سے نا مل سکا، بے گناہ مارا گیا، منیاں والے پل پر، جب سرحد کی لکیر بس دو گام ہی دور رہ گئی تھی۔

 اس کے خاندان کے افراد نا جانے کب تک، کتنے سالوں تک اس کا انتظار کرتے رہے ہوں گے۔ انہیں شاید یہ خبر نا ملی ہو گی کہ سنتالیس کے فسادات میں کیسی عجب ہوا چلی تھی کہ جان بچانے والے دوست کی ہی کلہاڑی آپ کی گردن پہ چل سکتی تھی۔ 

یوٹیوب پہ جب ہم نے مہتاب رام کی حویلی کی ویڈیو پوسٹ کی تھی تو کسی نے ویڈیو کے نیچے لکھا تھا کہ ''مہتاب رام کا پورا نام مہتاب رائے منجل تھا۔ میں ان کا گریٹ گرینڈ سن ہوں۔ ماں آج بھی موسم والا کی حویلی کی شان و شوکت کی کہانیاں فخر سے سناتی ہے اور کہتی ہے مہتاب رام پاکستان ہی رہ گیا تھا۔ خاندان سے مل نہیں پایا تھا۔‘‘

اب بابا وریام کی یہ ویڈیو دیکھ کر اور منیاں والے پل پر مہتاب رام کے قتل کی کہانی سن کر رب جانے ان کے دل پر کیا گزرے گی؟ اگلی نسلوں کے دلوں پر بھی ایک سن سینتالی گزر جائے گا۔ 

بابا وریام نے بتایا کہ جب سید جلال شاہ کو اپنے دوست کی موت کا پتا چلا تو وہ بے حد رنجیدہ ہوا۔ 

بعد میں غلام علی ضرور پکا نمازی بن گیا ہو گا۔

 گراں دتا کی قبر بھی اب تو ڈھے کر مٹ گئی ہو گی اور مہتاب رام کی کہانی بابا وریام ایسے بزرگوں کی یادوں میں آخری سانسیں لے رہی ہے۔ جلد ہی یہ بزرگ چلے جائیں گے اور یہ کہانیاں ہمیشہ کے لیے مر جائیں گی۔ 

بابا وریام نے کہانی ختم کی اور قدم گھسیٹتے ہوئے سید علی گاؤں کی طرف چل دیا۔ دھوپ اب بھی خوب چمک رہی تھی لیکن گندم کی سبز کونپلوں پہ پڑے اوس کے سورج نا جانے کہاں ڈوب گئے تھے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍

DW Urdu Blogger Ahmad Naeem
احمد نعیم چشتی انگریزی ادب کے استاد ہیں۔ اپنے علاقے میں بزرگوں کی 1947ء کی یادیں اکٹھی کرنے میں دلچسپپی رکھتے ہیں۔