1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسمياتی تبديليوں پر اجلاس، اختلافات برقرار ليکن اميد قائم

عاصم سليم5 دسمبر 2015

موسمياتی تبديليوں کے موضوع پر فرانس ميں جاری اجلاس ميں مذاکرات کاروں نے آج ايک اہم منصوبے کا مسودہ پيش کر ديا ہے، جسے معاہدے کی صورت ميں حتمی شکل ديے جانے سے موسمياتی تبديليوں کے مضر اثرات سے بچا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1HHsS
تصویر: Getty Images/AFP/P. Crock

فرانسيسی دارالحکومت پيرس کے شمالی مضافاتی علاقے ميں واقع لے بوژے کے مقام پر 195 ملکوں کے مذاکرات کار آج جمع کرائے جانے والے مسودے کو حتمی شکل دے چکے ہيں۔ آئندہ چار برس کے منصوبوں اور اہداف پر مبنی يہ مسودہ موسمياتی تبديليوں کے موضوع پر اب تک کے سب سے پيچيدہ معاہدے کے طور پر سامنے آ سکتا ہے جس پر عمل در آمد عالمی موسمياتی تبديليوں کے مضر اثرات سے بچنے میں موثر کردار ادا کر سکے گا۔ آئندہ پير سے اس مسودے پر بحث و مباحثہ شروع ہو گا۔

سائنسدان خبردار کرتے آئے ہيں کہ دنيا کے درجہ حرارت ميں اضافے کے ساتھ انسانوں کے ليے مشکلات بڑھتی جائيں گی۔ سطح سمندر ميں اضافے سے دنيا کے کئی حصوں ميں نہ صرف جزائر بلکہ آبادی والے ساحلی علاقے بھی زير آب آسکتے ہيں۔ اس کے علاوہ طوفانوں اور قحط جيسی قدرتی آفات ميں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ تاہم زمينی درجہ حرارت ميں اضافے کا سبب بننے والی ضرر رساں گيسوں کے اخراج ميں کمی کے ليے توانائی کے حصول کے ليے تيل، کوئلے اور گيس پر انحصار میں کمی اور کاربن اسٹورنگ جنگلات کے خاتمے کو روکنا لازمی عوامل ہيں۔ طاقتور صنعتيں اور کاروباری ادارے اپنے مفادات کی خاطر ايسے عوامل کی روک تھام ميں زيادہ دلچسپی نہيں رکھتے۔

مذاکرات کو تقويت بخشنے کے ليے آج ہفتہ پانچ دسمبر کے دن دنيا کے مختلف حصوں سے قريب پچاس معروف شخصيات بھی فرانس ميں موجود ہيں۔ امريکی اداکار سين پين کے علاوہ، امريکی عرب پتی مائيکل بلومبرگ اور چينی انٹرنيٹ ٹائيکون جيک ماء جيسی شخصيات مسودے پر اتفاق کے ليے سرگرم عمل ہيں۔ مذاکرات کاروں نے مختلف اور کافی متضاد مشوروں اور تجاويز پر غور کے بعد ايک حتمی مسودہ تشکيل ديا۔ مذاکرات کار اس مسودے کو 11 دسمبر تک یعنی اس سمٹ کے اختتام تک ايک حتمی معاہدے کی شکل دينے کی کوشش کريں گے۔

مذاکرات ميں195 ملکوں کے نمائندے شرکت کر رہے ہيں
مذاکرات ميں195 ملکوں کے نمائندے شرکت کر رہے ہيںتصویر: Reuters/J. Naegelen

شرکاء پُر امید ہيں کہ ڈينش دارالحکومت کوپن ہيگن ميں 2009ء ميں کسی معاہدے تک پہنچنے کی ناکام کوشش کے بعد اس بار نتيجہ مختلف ہو گا۔ يہ امر اہم ہے کہ وہ مذاکرات سن 2012 کے بعد کے ليے ايک ڈيل پر ہوئے تھے اور ان کی ناکامی کی وجہ امير اور غريب ممالک کے مابين اختلافات تھے۔ بعد ازاں دو برس بعد ڈربن ميں مذاکرات کاروں نے دوبارہ کسی عالمی سطح کے معاہدے کے حصول کی کوششيں شروع کيں۔

عالمی طاقتوں کے مابين اب بھی زہريلی کاربن گيسوں کے اخراج ميں کٹوتی کی شرح، ترقی يافتہ ممالک کی جانب سے لاکھوں ڈالر امداد اور اس کی ترسيل سميت عالمی درجہ حرارت ميں کمی کی مقدار کے حوالے سے شديد اختلافات موجود ہيں۔