1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موسمیاتی تبدیلی سے کمزور ملکوں میں تصادم میں اضافے کا خدشہ

31 اگست 2023

موسمیاتی تبدیلیوں سے غیرمتناسب بوجھ کا شکار ملکوں میں سے نصف سے زیادہ تعداد افریقی ملکوں کی ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ کا کہنا ہے کہ موسمیاتی دھچکوں سے ہونے والے معاشی نقصانات کمزور ملکوں میں زیادہ "شدید" ہیں۔

https://p.dw.com/p/4VmJB
سال ۲۰۲۲میں انتہائی شدید موسم کے اثرات پورے افریقہ میں نظر آئے
سال ۲۰۲۲میں انتہائی شدید موسم کے اثرات پورے افریقہ میں نظر آئےتصویر: DW

عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بدھ کے روز ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے دنیا بھر کے کمزور ممالک میں تنازعات کے مزید بڑھنے اور اموات میں اضافے کا خطرہ ہے۔

آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ گرچہ صرف موسمیاتی دھچکے ہی نئی بدامنی کو جنم نہیں دے سکتے لیکن وہ"نمایاں طورپر تصادم کو مزید خراب کرتے ہیں، جس سے بھوک، غربت اور نقل مکانی جیسے مسائل مزید بڑھ جاتے اور پیچیدہ ہو جاتے ہیں۔"

رپورٹ میں کیا کہا گیا ہے؟

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سن 2060 تک مبینہ کمزور اور تصادم سے متاثرہ ریاستوں (ایف سی ایس) میں تنازعات کے سبب ہونے والی اموات میں 8.5 فیصد کا اضافہ ہوسکتا ہے جب کہ درجہ حرارت میں انتہائی اضافے والے ملکوں میں ہونے والی اموات 14فیصد تک زیادہ ہو سکتی ہے۔

فطرت کے تحفظ کے لیے 'بائیو ڈائیورسٹی فنڈ' قائم کر دیا گیا

ورلڈ بینک کی درجہ بندی کے مطابق 39 ملکوں میں تقریباً ایک ارب لوگ رہتے ہیں اور دنیا کی 43 فیصد آبادی ایف سی ایس کے زمرے میں آتی ہے۔ ان ممالک میں سے نصف سے زیادہ افریقی ملک ہیں جو موسمیاتی تبدیلیو ں کے غیر مناسب بوجھ کا شکار ہیں۔

آئی ایم ایف نے متنبہ کیا ہے کہ ان ممالک میں سن 2060 تک 50 ملین سے زیادہ لوگ، خوراک کی کم پیداوار اور اناج کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔

اس نے مزید کہا کہ موسمیاتی دھچکوں کے نتیجے میں ہونے والے معاشی نقصانات دیگر ممالک کے مقابلے میں کمزور ممالک میں زیادہ "شدید اور مستقل" ہوتے ہیں۔

آئی ایم ایف نے ایک الگ بیان میں کہا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ اگلے ہفتے کینیا میں پہلی افریقی موسمیاتی سربراہی اجلاس کے لیے جمع ہونے والے رہنما کمزور ممالک کو درپیش مسائل کا حل تلاش کریں۔

آئی ایم ایف کے مطابق ہر سال، دیگر ممالک کے مقابلے کمزور ریاستوں میں قدرتی آفات سے تین گنا زیادہ لوگ متاثر ہوتے ہیں
آئی ایم ایف کے مطابق ہر سال، دیگر ممالک کے مقابلے کمزور ریاستوں میں قدرتی آفات سے تین گنا زیادہ لوگ متاثر ہوتے ہیںتصویر: Sony Ramany/NurPhoto/picture-alliance

کمزور ممالک دیگر ملکوں کے مقابلے آفات سے تین گنا زیادہ متاثر

آئی ایم ایف نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ "ہر سال، دیگر ممالک کے مقابلے کمزور ریاستوں میں قدرتی آفات سے تین گنا زیادہ لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ کمزور ریاستوں میں آنے والی آفات دوسرے ملکوں کی آبادی کے دوگنا سے زیادہ حصے کو بے گھر کرتی ہیں۔"

آئی ایم ایف نے کہا کہ 2040 تک ان ممالک کو سال میں 61 دن اوسطاً 35 ڈگری سیلسیئس سے زیادہ درجہ حرارت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جو کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں چار گنا زیادہ ہے۔

گزشتہ دہائی میں گلوبل وارمنگ میں اضافے سے متعلق نئی تحقیق

"انتہائی گرمی اور اس کے ساتھ آنے والے شدید موسمیاتی واقعات انسانی صحت کو خطرے میں ڈال دیں گے اور اس سے زراعت اور تعمیرات جیسے اہم شعبوں میں پیداواری صلاحیت اور ملازمتوں کو نقصان پہنچے گا۔"

افریقی حکومتیں برسوں سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ دنیا کے سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک اپنے اخراج سے ہونے والے نقصانات کی بھرپائی کریں
افریقی حکومتیں برسوں سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ دنیا کے سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک اپنے اخراج سے ہونے والے نقصانات کی بھرپائی کریںتصویر: Spencer Platt/Getty Images

افریقی ملکوں کا مطالبہ

نیروبی میں چار سے چھ ستمبر کے درمیان سربراہی کانفرنس ہورہی ہے، جس کا مقصد 1.4 ارب افراد پر مشتمل براعظم افریقہ کو درپیش موسمیاتی چیلنجو ں سے نمٹنا ہے۔ یہ کانفرنس نومبر اور دسمبر میں متحدہ عرب امارات میں اقوام متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات کے اگلے دور سے پہلے ہو رہی ہے۔

افریقی حکومتیں برسوں سے مطالبہ کر رہی ہیں کہ دنیا کے سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والے ممالک اپنے اخراج سے ہونے والے نقصانات کی بھرپائی کریں۔

ماحولیاتی انصاف کے لیے اقوام متحدہ میں تاریخی قرارداد منظور

انٹرنیشنل کرائسس گروپ میں سینیئر تجزیہ کار نازنین مشیری نے کہا کہ" دوبئی میں سی او پی 28 کی ہونے والے سربراہی اجلاس سے قبل ماحولیات اور تنازعات پر ایک ساتھ غور کرنا ضروری ہے۔"

نازنین مشیری نے مزید کہا،"ہمیں صرف قرن افریقہ کی صورت حال پر غور کرنے کی ضرورت ہے، جہاں موسمیاتی تبدیلی اور تنازعات کے علاوہ پچھلے مسلسل پانچ برسوں کے دوران خراب موسم باراں، غیر معمولی سیلاب اور دنیا کی بدترین غذائی ہنگامی صورت حال نے عدم استحکام میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔"

 ج ا/ ص ز (اے ایف پی)