موصل میں داعش کے خلاف مربوط فوجی آپریشن کا آغاز
17 اکتوبر 2016’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف حملوں کا آغاز آج پیر سترہ اکتوبر کو علی الصبح کیا گیا۔ عراقی، کرد اور امریکی افواج کے قافلوں کو موصل کے مشرق کی جانب پیش قدمی کرتے دیکھا گیا ہے۔ امریکا کی قیادت میں اتحادی افواج نے داعش کی اگلی صفوں پر فضائی حملے کیے ہیں جبکہ بھاری توپوں سے گولہ باری کی آوازیں بھی سنی گئیں۔
اس سے قبل عراقی وزیر اعظم حیدر العبادی نے سرکاری ٹی وی پر موصل میں داعش کے خلاف فوجی آپریشن شروع کرنے کا اعلان کیا۔ ٹی وی پر موصل کے شہریوں کے نام اپنے پیغام میں العبادی نے کہا، ’’یہ تمام افواج جو آج آپ کو داعش کے تسلط سے آزاد کرانے نکلی ہیں، ان کا صرف ایک مقصد ہے۔ داعش سے چھٹکارا اور آپ کے شخصی وقار کی حفاظت۔‘‘ العبادی کا کہنا تھا کہ خدا نے چاہا تو ان دستوں کو داعش کے خلاف کامیابی حاصل ہو گی۔
اسی دوران امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے موصل کو داعش کے قبضے سے چھڑانے کے عسکری آپریشن کو ایک فیصلہ کن لمحہ قرار دیا ہے۔ کارٹر نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکا اور بین الاقوامی عسکری اتحاد کے دیگر رکن ممالک عراق اور کرد فورسز کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔ عراق کا دوسرا بڑا شہر موصل دو برس سے بھی زائد عرصے سے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے میں ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق وہاں ابھی تک ایک ملین سے زائد شہری مقیم ہیں۔
حالیہ کچھ دنوں میں عراقی فورسز، خاص کر لڑائی میں آگے رہنے والے عراقی خصوصی دستے اور ان کے کرد ملیشیا حامی جنگجو موصل شہر کے ارد گرد جمع ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سنی قبائلی جنگجو، شیعہ ملیشیا فورسز اور عراقی پولیس دستے بھی اس آپریشن میں حصہ لینے کے لیے شہر کے اطراف میں جمع ہیں۔
موصل پر بڑے حملے سے قبل عراقی افواج کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں ایسے پمفلٹ بھی شہر میں گرائے گئے، جن پر وہ تدابیر درج تھیں، جن کے ذریعے عام شہری ممکنہ فوجی کارروائی کے دوران خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق موصل میں جنگ کی صورت میں ایک نئے انسانی بحران کا آغاز بھی ہو سکتا ہے کیوں کہ داعش کی طرف سے عام شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کو خدشہ کہ موصل پر داعش کے قبضے کے خلاف فوجی آپریشن کے نتیجے میں دو لاکھ تک افراد بے گھر ہو سکتے ہیں۔ مشرقی فرنٹ لائن سے صرف چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایسے نئے پناہ گزینوں کے لیے بنائے گئے خالی کیمپوں کی قطاریں موجود ہیں تاہم مختلف امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ ان کیمپوں میں صرف ایک لاکھ تک افراد کو پناہ دینے کے گنجائش ہے۔