موصل کا گن کلچر، سلامتی کی سنگینی یا شکار کا شوق
21 اپریل 2019عراقی شہر موصل کو جہادی تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے قبضے سے عراقی فوج نے سن 2017 کے وسط میں چھڑایا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ جہادی حکمرانوں کے ردعمل میں موصل کے شہریوں کو سلامتی اور تحفظ کے خدشات نے بدستور گھیر رکھا ہے۔ سکیورٹی خدشات کی ایک وجہ موصل کے قریب سرحدی علاقوں میں جہادی عناصر کا ابھی بھی فعال ہونا خیال کیا گیا ہے۔
سماجی ماہرین کے مطابق داعش کی جابرانہ حکمرانی کے گہرے اثرات موصل کے شہریوں کی معاشرت پر مرتب ہوئے ہیں اور اُن کو اپنے اور اپنے خاندان کے تحفظ کی اب فکر لاحق ہے۔ دوسری جانب حکومت نے بھی اسلحے کی فروخت کے نئے اجازت نامے جاری کیے ہیں اور ملکی وزارت داخلہ کی جانب سے لائسنس ملنے کے بعد جدید اسلحے کی دوکانیں کھلنا شروع ہو گئی ہیں۔
ہتھیار فروخت کرنے والی دوکانوں میں موصل کے شہریوں کی دلچسپی بھی بڑھی ہے۔ ایک دوکان کے مالک نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ اُن کی دوکان پر گاہکوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ گاہک ایسے ہیں جن کو ہتھیار خریدنے کی اجازت بھی حکام نے دی ہے۔ کئی ایسے افراد بھی ان دوکانوں پر پہنچے ہیں، جن کے پاس ملکی مسلح افواج کے شناخت نامے ہوتے ہیں۔
اسی دوکاندار کے مطابق ابھی تک سب سے زیادہ فروخت ہونے والی رائفل وہ ہے، جو شکار کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ مجموعی اسلحے کی فروخت میں ستر فیصد وہ ہتھیار خرید جا رہے ہیں جو بظاہر شکار کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ عراقی شہریوں میں شکار کا شوق خاصا پرانا ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ چھوٹے ہتھیاروں کے بین الاقوامی سروے کے مطابق عراق ایک ایسا ملک ہے، جہاں کے شہریوں کے پاس ہتھیار رکھنے کے لائسنس کی تعداد غیرمعمولی ہے۔ اس سروے کے مطابق یہ شرح انتہائی زیادہ سویلین ہتھیار رکھنے والے ممالک جیسی ہے اور ہر سو عراقی شہریوں میں سے بیس افراد اپنا ذاتی ہتھیار رکھتے ہیں۔
عراق میں ہتھیاروں کی فروخت میں اضافہ سن 2018 کی ایک قانون سازی کا نتیجہ ہے۔ اس نئے قانون کے تحت عراقی شہری پستول اور نیم خوکار ہتھیار خرید سکتے ہیں۔ قبل ازیں انہیں صرف شکار کی رائفل خریدنے کی اجازت ہوتی تھی۔ اس اجازت کے بعد موصل میں جدید ہتھیاروں کی حامل دوکانیں شائقین کے لیے ایک خاص کشش رکھتی ہیں۔
ان دوکانوں پر امریکا اور چین سمیت کئی ممالک کی رائفلوں کے ساتھ ساتھ کروشیا تک کے پستول بھی دستیاب ہیں۔ دوکانوں پر موجود رائفل اور پستول کی قیمت پچاس ڈالر سے لے کر پانچ ہزار امریکی ڈالر تک ہے۔ یہ ایک حیران کن حقیقت ہے کہ عراق میں اوسط ماہانہ آمدنی پانچ سو ڈالر ہے۔