مولانا خوف کا پُل عبور کرنے سے ڈرتے ہیں
6 نومبر 2019ان کا تعلق سندھ کے ضلع لاڑکانہ سے تھا۔ دھرنے میں ایک شخص کے وفات پانے کی خبر اہم تھی لیکن حیران کن طور پر ٹی وی چینلز نے اس خبر کو اہمیت دینا مناسب نہ سمجھا۔ شام کو کشمیر ہائی وے سے گزرنا ہوا تو پتا چلا کہ لوگ بدستور وہاں موجود ہیں۔ پانچ دن گزرنے کے باوجود ان کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ کم و بیش دو کلومیٹر تک کے علاقے میں جگہ جگہ لوگ کھلے آسمان تلے موجود ہیں اور کئی ٹینٹ بھی لگے ہوئے ہیں، جن کے باہر لوگوں نے اپنے کھانے پینے کے لیے الگ سے خصوصی انتظامات بھی کررکھے ہیں۔ گزشتہ شب سے اسلام آباد میں ٹھنڈ ہو چکی ہے لیکن یہ متوالے کسی بات کی پرواہ کیے بغیر وہاں موجود ہیں۔
رات گئے بارش ہوئی لیکن پتہ چلا کہ متوالوں کی اکثریت وہیں موجود ہے، اکثریت اپنے ساتھ پلاسٹک بیگ لائے ہوئے تھی، جو ٹینٹوں پر لگا دیے گئے ہیں، بعض نے قریبی میڑو اسٹیشن پر رات گزاری ہے تو کچھ نے سرکار کی طرف سے لگائے ہوئے کنٹینرز کو اپنا عارضی مسکن بنا لیا، کئی مساجد میں رکے اور کئی نے مدرسوں میں پناہ لی۔ بارش البتہ ان کے حوصلے پست نہیں کر سکی۔
سال 2014ء میں عمران خان اور طاہرالقادری جن لوگوں کو یہاں لائے تھے، ان میں زیادہ تر کا تعلق پنجاب اور خیبرپختونخواہ سے تھا۔ عمران خان کے ساتھ آئے لوگوں میں سے اکثر صاحب حیثیت تھے لہذا وہ رات جلسے میں شرکت کے بعد اسلام آباد کے مختلف ہوٹلوں میں چلے جاتے۔ طاہر القادری کے متوالے البتہ وہیں ڈٹے رہتے۔ دونوں رہنماؤں کے متوالوں کو البتہ یہ یقین ضرور تھا کہ آج نہیں تو کل حکومت ختم ہو گی اور ان کے رہنماوں کو گارڈ آف آنر دے کر تخت پر بٹھا دیا جائے گا۔
ادھر مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ میں شریک افراد کا تعلق صرف پنجاب سے ہی نہیں بلکہ اکثریت کا تعلق بلوچستان، سندھ ، خیببر پختونخواہ اور فاٹا سے ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے بھی موجود ہیں لیکن کم ہیں یعنی دھرنے میں ہر لحاظ سے چاروں صوبوں کی نمائندگی کسی نہ کسی طریقے سے موجود ہے۔
بارش عمران خان اور طاہر القادری کی ڈی چوک موجودگی کے دوران بھی ہوئی اور آج بھی ہو رہی ہے مگر سیاسی متوالے تب بھی اپنی قیادتوں کے ساتھ موجود تھے اور آج بھی موجود ہیں۔ یہ الگ بات کہ مولانا فضل الرحمان کے متوالے زیادہ آہنی اور مصمم ارادوں کے حامل دکھ رہے ہیں۔
پانچ نومبر رات گئے شروع ہونے والی بارش آج صبح بھی جاری تھی۔ بارش کے باعث مرکزی پنڈال ایک موقع پر خالی ہو گیا لیکن جمعیت العلمائے اسلام ف کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کی خاکی رنگ کی شلوار قمیض میں موجود سالاروں کی ایک بڑی تعداد سردی اور برستی بارش کی پرواہ کیے بغیر میدان میں کھڑی ہوئی اور نعرے بازی کرنے لگی ۔ ایسا تو عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں میں بھی نہیں دیکھا گیا۔
آزادی مارچ کے لیے مختص کنٹینر پر جمعیت العلمائے اسلام ف کے بعض رہنما موجود ہیں لیکن مولانا فضل الرحمان البتہ اپنی رہائش گاہ پر سیاسی ملاقاتوں اور اپنے دھرنے کو کوئی منطقی انجام دینے کی فکر میں مشغول ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں آزادی مارچ کا مطالبہ تھا کہ وزیراعظم فوری اپنے عہدے سے مستعفی ہوں مگر وزیراعظم عمران خان نے بھی استعفے سے کھلم کھلا انکارکر رکھا ہے۔
دوسری طرف آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت کور کمانڈرز کانفرنس کے بعد جاری اعلامیے میں بھی کھل کر موجودہ حکومت کی حمایت نے مولانا فضل الرحمان کو عملی طور پر بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ مولانا آگے بڑھتے ہیں تو ہلاکتوں کا خوف، پیچھے جاتے ہیں تو کندھے پر اپنی سیاست کا جنازہ لے کر جانا پڑتا ہے۔ ایسے میں عزت بچانا مقدم ہے۔ ویسے انگریزی کا مشہورمقولہ ہے، ترجمہ: آپ کی ہر خواہش اور تمنا خوف کے پل سے پرے ہے۔
مولانا کی تقاریر میں البتہ منطق کی بات کی جا رہی ہے وہ خود کو خوف زدہ ظاہر نہیں کر رہے مگر انہوں نے حکومت سے مذاکرات کا جو سلسلہ اکرم درانی کے ذریعے شروع کیا ہے، اس میں ایک قومی سطح کا ڈائیلاگ فورم قائم کرنے کی بات کی گئی ہے۔
اس فورم میں ملکی سیاسی و فوجی قیادت مل کر اپنی اپنی غلطیوں کا اعتراف کرے گی اور اپنی اپنی آئینی حدود کی پابندی کا اعادہ ۔ اگر یہ فورم بن جاتا ہے اور حکومت اور باقی ادارے اس پر سرتسلیم خم کر لیتے ہیں تو یقین مانیے مولانا کا دھرنا امر ہو جائے گا دوسری صورت میں مولانا چھوٹی موٹی کامیابی ہی حاصل کریں گے کیونکہ وہ خوف کا پُل عبور کرنے سے ڈرتے ہیں۔
ہاں یہ بات ضرور ہے کہ مولانا کامیاب ہوں یا ناکام ان کے متوالوں نے برستی بارش میں ان کے ساتھ کھڑے ہو کر ثابت کر دیا ہے کہ کارکن ہر حد تک جانے کے لیے تیار ہوتے ہیں مگر ان کے نام پر آخری سودے بازی قیادتیں ہی کرتی ہیں۔ قصور کارکنوں کا نہیں رہنماؤں کا ہوتا ہے، جو بارش میں بھی اپنے گھروں میں موجود رہتے ہیں اور کنٹینر پر آ کر محض خطاب ہی کرتے ہیں۔ قیادت عمران خان کی ہو یا مولانا فضل الرحمان کی کارکن محض اقتدار کی جنگ کا ایندھن ہوتے ہیں، ترجیحات نہیں۔