1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے ’سیاسی قوت کا مظاہرہ‘

31 مارچ 2013

پاکستان کی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت العلمائے اسلام (ف) نے اتوار کو لاہور میں ’سیاسی قوت‘ کا مظاہرہ کیا ہے۔ مینار پاکستان گراؤنڈ میں ہونے والےاس جلسے میں صوبہ پنجاب سے اس جماعت کے حامیوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی۔

https://p.dw.com/p/187P7
تصویر: picture alliance / dpa

صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں مینار پاکستان کے گراؤنڈ میں عمران خان کے جلسے کے چند روز بعد ہونے والے جمیعت العلمائے اسلام (ف) کے اسلام زندہ باد کانفرنس کے نام منعقد کیے گئے اس جلسے کے شرکاء کے لیے غیر معمولی حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ جلسہ گاہ کے آس پاس کے علاقوں میں موبائل فون سروس دن بھر بند رکھی گئی۔ سیکورٹی کے لیے ڈھائی ہزار پولیس اہلکار اور جے یو آئی (ایف) کے پانچ ہزار رضاکار تعینات کیے گئے تھے۔

اس موقع پر ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے جمیعت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے بتایا کہ اس جلسے کا بنیادی مقصد انتخابات سے پہلے پارٹی کے پیغام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا اور پارٹی کوزیادہ وسعت دے کراس میں مزید عوامی شمولیت کو یقینی بنانا ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ ایک ایسے شہر میں اتنا بڑا جلسہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی جس میں جے یو آئی کوئی قابل ذکر امیدوار بھی الیکشن میں کھڑے نہیں کر رہی۔ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا: ’’یہ ضروری نہیں ہے کہ صرف انتخابی علاقوں میں ہی جلسے کیے جائیں، ملک بھر میں جلسے کرنا ہمارا جمہوری حق ہے اور ہم اس سے قبل ایسے کامیاب جلسے کراچی اور سکھرسمیت کئی دیگرشہروں میں بھی کرچکے ہیں۔‘‘

جے یو آئی ایف کے ایک اور رہنما مولانا امجد خان کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے ’پارلیمانی جدوجہد‘ جاری رکھے ہوئے ہے اور الیکشن شیڈول کے اعلان کے بعد ہونے والا ان کی جماعت کا یہ جلسہ اس مقصد کی تکمیل میں معاون ثابت ہوگا۔

Nawaz Sharif
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما نواز شریفتصویر: AP

بعض مبصرین کے مطابق جے یو آئی ایف عوامی طاقت کے ان مظاہروں سے اس تاثر کو زائل کرنا چاہتی ہے کہ وہ صرف دینی مدارس کے طلبہ یا پھر محدود دینی طبقات کی نمائندگی کرنے والی جماعت ہے۔ ان کے نزدیک اس جماعت کی طرف سے اپنے منشور کے اعلان کے لیے کیے جانے والے اس جلسے کے لیے لاہور شہر کا انتخاب بھی معنی خیز ہے۔ اس جماعت نے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے سرد مہری کا اظہار کرنے والی مسلم لیگ (ن) کویہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اس کا پنجاب میں مؤثر ووٹ بینک موجود ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

تجزیہ کار اور روزنامہ نئی بات کے ایڈیٹر عطاالرحمٰن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس جلسے کے ذریعے جمیعت العلمائے اسلام (ف) ایک سے زائد مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہے، ان کے بقول عوامی طاقت کے مظاہرے سے اس جماعت کو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر جماعتوں سے جاری مذاکرات میں بھی فائدہ ہو گا۔

ان کے مطابق یہ جلسہ اس شہر میں ہوا ہے، جہاں جماعت اسلامی کے ہیڈکوارٹرز ہیں اور اس طرح فضل الرحمٰن نے جماعت اسلامی کو بھی یہ پیغام دیا ہے کہ اس کے لیے ان کی طاقت کو نظر اندازکرنا آسان نہیں ہوگا۔ یاد رہے کہ جماعت اسلامی نے متحدہ مجلس عمل کو انتخابی اتحاد بنانے کے لیے فضل الرحمٰن کی تجویز کی مخالفت کی تھی۔

عطاالرحمٰن کے مطابق یہ بات بھی یاد رکھی جانی چاہیے کہ طالبان نواز شریف، فضل الرحمٰن اور منور حسن کو اپنا ضامن قرار دے چکے ہیں اور اگر آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) قریب آتی ہیں تو اس سے دنیا کو بھی یہ پیغام جائے گا کہ یہ لوگ آنے والے دنوں میں طالبان کے ساتھ بات چیت کو کامیابی سے آگے بڑھا کر امن کی راہ بہتر طور پر ہموار کر سکتے ہیں۔

رپورٹ: تنویر شہزاد، لاہور

ادارت: ندیم گِل