1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’موٹر سائیکل چلانے کا مطلب صرف آزادی ‘

12 جون 2018

ایک سال پہلے تک یہ سوچنا بھی مشکل تھا کہ سعودی خواتین جینز  اور ٹی شرٹس پہنے ریاض میں موٹر سائیکل چلائیں گی۔ لیکن اب ایک سعودی بائیکرز کلب میں سعودی خواتین کے لیے یہ ممکن ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/2zKXN
Frauen in Saudi Arabien lernen Motorrad fahren
تصویر: Reuters/H. I. Mohammed

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ملکی دارالحکومت ریاض میں خواتین ہر ہفتے ایک پرائیویٹ ادارے ’بائیکر سکلز انسٹیٹیوٹ‘ میں موٹر سائیکل چلانا سیکھتی ہیں۔ سعودی عرب میں 24 جون سے خواتین ڈرائیورز پر عائد پابندی کا خاتمہ ہو جائے گا۔ ایک 31 سالہ خاتون نورا (اصلی نام ظاہر نہیں کیا) نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا،’’ میں بچپن سے موٹر سائیکل چلانے کا شوق رکھتی تھی۔‘‘ سعودی عرب میں خواتین ڈرائیورز پر عائد پابندی  کے بعد سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو دنیا بھر میں سراہا گیا ہے لیکن اسی ملک کی خواتین سماجی کارکنان کی گرفتاریاں  خواتین کے حوالے سے سعودی عرب کے پیچیدہ حالات کی عکاسی بھی کرتی ہیں۔

Frauen in Saudi Arabien lernen Motorrad fahren
تصویر: Reuters/H. I. Mohammed

موٹر سائیکل سیکھنے والی کوئی بھی خواتین اس ملک میں خواتین سماجی کارکنان کی گرفتاریوں  پر بات نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ان کی رائے میں یہ ایک حساس معاملہ ہے اور وہ اس وقت اس آزادی پر توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہیں جو انہیں اب سعودی حکومت کی طرف سے فراہم کی جارہی ہیں۔

نورا نے اے ایف پی کو بتایا،’’ میں چاہتی ہوں کہ سعودی عرب کی سٹرکوں پر موٹر سائیکل چلا سکوں۔  موٹر سائیکل سیکھنے والی ایک انیس سالہ خاتون لین ٹیناوی نے بتایا،’’ میرے لیے موٹر سائیکل چلانے کا مطلب صرف آزادی ہے۔‘‘ خواتین بائیکرز کے لیے ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ وہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے کیا لباس پہنیں گی ؟۔ اس ادارے میں تو وہ  جینز اور ٹی شرٹ پہن پاتی ہیں لیکن وہ عوامی جگہوں پر عبایا پہننے پر مجبور ہیں۔

Frauen in Saudi Arabien lernen Motorrad fahren
تصویر: Reuters/H. I. Mohammed

سعودی عرب کی سٹرکوں پر کئی سال سے مردوں کی اجارہ داری قائم ہے۔ بہت سی خواتین کی رائے میں اب بھی ان کے خاندان کے مرد ان کی زندگی کے اہم فیصلے کر سکتے ہیں۔ کئی خواتین کو یہ بھی خدشہ ہے کہ انہیں سڑکوں پر ہراساں کیا جائے گا۔ تاہم حکومت کی جانب سے بنائے گئے قانون کے تحت ہراساں کرنے والے شخص کو پانچ سال جیل کی سزا اور تین لاکھ ریال کا جرمانہ بھی ہوسکتا ہے۔

 

بہت سی خواتین کے لیے خواتین سماجی کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن باعث تشویش ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل مشرق وسطیٰ کی ڈائریکٹر سماہ حمید کا کہنا ہے،’’ سعودی حکومت کہتی تو ہے کہ وہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہے لیکن ان خواتین کو حراست میں بھی لیا جا رہا ہے جو آزادی مانگ رہی ہیں۔‘‘

ب ج / ع تو (اے ایف پی)