1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

موٹر وے زیادتی کیس: کیا چیف جسٹس کی تشویش کافی ہے؟

12 ستمبر 2020

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ موٹر وے پر خاتون کے ساتھ زیادتی کا واقعہ شرم ناک ہے، انہوں نے ملک میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر گہری تشویش کا بھی اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3iN93
Pakistan Protest gegen Vergewaltigungsfall auf der Autobahn
تصویر: DW/T. Shahzad

موٹر وے پر خاتون سے زیادتی کے افسوسناک واقعے کے بعد یہ پہلا موقعہ ہے کہ عدلیہ کی اہم ترین شخصیت کی طرف سے اس واقعے پرشدید رد عمل ظاہر کیا گیا ہے۔ پاکستان میں عوامی حلقوں کا خیال ہے کہ ایسے واقعات میں تشویش کا اظہار اپنی جگہ لیکن ضرورت اس بات کو یقینی بنانے کی ہے کہ ایسے واقعات میں ملوث مجرمان سزا سے نہ بچ سکیں۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے کوئٹہ اور ساہیوال کیسز میں بھی عوامی توقعات کے مطابق مجرموں کو سزا نہیں مل سکی تھی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد خان کا کہنا تھا کہ یہ بات شرمناک ہے کہ ہائی وے پر شہریوں کی حفاظت کا موثر نظام موجود نہیں۔ ان کے بقول حکومت ہوش کے ناخن لے، محکمہ پولیس کی ساکھ کو بحال کرے اور پولیس میں کسی بھی سیاسی شخص کی مداخلت کا راستہ روکے۔

لاہور میں پنجاب جوڈیشل اکیڈمی کے زیر اہتمام کمرشل و اوورسیز کورٹس ججز کے لیے منعقدہ چھ روزہ تربیتی ورکشاپ کے اختتامی سیشن سے خطاب کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے موٹر وے واقعے سے متعلق کہا کہ عوام کی جان و مال محفوظ نہیں اور معصوم مسافروں کو ہائی وے پر سنگین جرائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

گھریلو اور جنسی تشدد کے خلاف نئی مہم:’نو مور‘

ایک جرم آدھے لمحے کا اور ’پاک سرزمین‘ جو ہلی تو مگر پھٹ نہ سکی

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ پنجاب پولیس میں ہونے والے تبادلے ظاہر کرتے ہیں کہ پولیس کے محکمے میں کس قدر سیاسی مداخلت ہے۔ ان کے مطابق اس وقت تک عوام کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی نہیں بنایا جاسکتا جب تک پولیس فورس میں پیشہ ورانہ مہارت نہ ہو۔

واضح رہے کہ چند روز پہلے رات گئے لاہور کے قریب موٹر وے پر مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ گاڑی بند ہونے پر وہاں مدد کی منتظر تھیں۔ اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ کی جانب سے ایک متنازع بیان بھی دیا گیا جس میں خاتون کو غیر محتاط انداز میں سفر کرنے کے لیے مورد الزام ٹھہرایا گیا تھا۔ سی سی پی او کے ان ریمارکس پر عوام کی جانب سے سخت مذمت کی گئی اور ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

واردات میں ملوث ملزم کا پتہ چلا لیا گیا

اس ضمن میں تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ پنجاب پولیس نے اس واردات میں ملوث ملزم کا پتہ چلا لیا ہے، اورمجرمانہ ریکارڈ کے حامل مشتبہ ملزم کے ڈی این اے کے نمونے بھی متاثرہ خاتون کے ڈی این اے کے نمونوں سے میچ کر گئے ہیں۔ تاہم پولیس حکام ابھی تک ملزم کی گرفتاری کی تصدیق نہیں کر رہے ہیں۔ ادھر لاہور کے علاقے ڈیفنس میں متاثرہ خاتون ابھی تک ٹراما کی حالت میں ہے۔ آج صبح پولیس کی جانب سے متاثرہ خاتون سے زیادتی کیس میں تحقیقات کے لیے بیان ریکارڈ کرانے کی غرض سے رابطہ کیا گیا تاہم خاتون کے اہل خانہ نے فی الوقت بیان ریکارڈ کرانے سے معذرت کی ہے۔ دوسری طرف ملک کے دوسرے حصوں سے بھی خواتین کو ہراساں کرنے اور انہیں زیادتیوں کا نشانہ بنانے کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔


کیا موٹر وے زیادتی کیس کے ملزمان کو سزا مل سکے گی؟

اس سوال کے جواب میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے پنجاب بار کونسل کے وائس چیئرمین عابد ساقی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا، ''ہماری عدالتیں ایک طے شدہ قانونی طریقہ کار سے کام کرنے کی پابند ہیں۔ انہوں نے آئین، قانون کو سامنے رکھتے ہوئے دستیاب شہادتوں پر فیصلہ دینا ہوتا ہے۔ اگر پراسیکیوشن حکام کیس درست نہیں بناتے اور پولیس صحیح طریقے سے تفتیش نہیں کرتی تو اس سے یہ کیس پیچیدگی کا شکار ہو سکتا ہے اور اس کا فائدہ ملزم کو پہنچتا ہے۔‘‘

Pakistan Oberster Gerichtshof
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد خان کا کہنا تھا کہ یہ بات شرمناک ہے کہ ہائی وے پر شہریوں کی حفاظت کا موثر نظام موجود نہیں۔ تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi

عابد ساقی کا خیال ہے کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد ظلم کے خلاف ڈھال بن کر مظلوم کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور معاشرہ ایک ایسا دباؤ ڈالے جس میں آئین میں دی گئی جان و مال کی حفاظت کی گارنٹی اور انسانی حقوق پر کوئی کمپرومائز کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ ایک اور سوال کے جواب میں عابد ساقی نے بتایا کہ وکلا تنظیمیں مظلوم پارٹیوں کو فری قانونی امداد فراہم کرتی ہیں اور وہ بھی مظلوم خاتون کو انصاف کی فراہمی کے لیے مکمل تعاون کریں گے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر محمد اکرم شیخ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے اور حکومت اس ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان کے بقول پاکستان میں نظام عدل خود ہی مظلوم ترین ادارہ بن چکا ہے: ''بد قسمتی سے ملک کے نظام عدل کی اصلاح کسی بھی حکومت کی ترجیح نہیں رہی ہے۔ اگر ہزاروں مقدمات میں سے ایک مقدمے کے ملزمان کو سزا مل بھی گئی تو یہ کافی نہیں ہو گا۔ پورے نظام عدل کو بہتر بنانا ہوگا۔ اس کے لیے سب کو مل جل کر اپنے حصے کی ذمہ داری نبھانا ہو گی۔ تاکہ سب مظلوموں کو انصاف مل سکے۔ ‘‘