مڈ وائفز کا عالمی دن
5 مئی 2016انٹرنیشنل ڈے آف مڈ وائفز IDM یا دائیوں کی گراں قدر خدمات کی تعظیم اور تحسین کے لیے 5 مئی کو ان کا عالمی دن منانے کی پیش قدمی 1991 ء میں شروع کی گئی تھی۔ یہ خیال دراصل 1989ء میں یورپی ملک ہالینڈ میں انٹرنیشنل کنفیڈریشن آف مڈ وائفز کے زیر انتظام منعقد ہونے والے ایک اجلاس میں پیش کیا گیا تھا۔ پہلی بار یہ دن 5 مئی 1991 ء کو دنیا کے 50 ممالک میں منایا گیا تھا۔ ہر سال مڈ وائفز کے عالمی دن کا ایک نیا موٹو ہوتا ہے۔ اس بار IDM کی سلور جوبلی یعنی 25 سال مکمل ہونے پر اس سال اسے خاص طور سے منایا جا رہا ہے اور اس بار اس کا موضوع ہے،’’ویمن اینڈ نیو بورنز: دا ہارٹ آف مڈوائفری۔‘‘ یعنی ’’خواتین اور نومولود بچے:دائیوں کا قلب۔‘‘
نئی ماؤں کا خوف دور کرنا
جرمنی میں بچہ ہسپتال میں پیدا ہو یا گھر میں اُس کی پیدائش کے وقت ایک مڈ وائف یا دائی کا موجود ہونا لازمی ہے۔ جرمنی بھر میں لگ بھگ 21 ہزار پانچ سو مڈ وائفز اپنے فرائض انجام دے رہی ہیں اور ان کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ جرمن مڈ وائفز سوسائٹی کی صدر مارٹینا کلنک کہتی ہیں،’’دائیاں یا مڈ وائفز حمل کے امور کی ماہر ہوتی ہیں۔ دوران حمل، بچے کی پیدائش کے وقت اور پیدائش کے بعد ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ اُس کے پاس کوئی تربیت یافتہ مڈ وائف یا دائی موجود ہو۔ ماں بننے کا عمل ہر عورت کی زندگی کا ایک انوکھا تجربہ ہوتا ہے جو اُس کی زندگی میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا باعث بنتا ہے۔‘‘
مڈ وائفز یا دائیاں خاص طور سے پہلی بار ماں بننے والی خواتین کے لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ وہ ڈیلوری روم یا لیبر روم میں بھی موجود ہوتی ہیں اور بچے کی پیدائش کے بعد یہ مڈ وائفز کئی ہفتوں تک ماں اور بچے کی نگہداشت پر نظر رکھنے کے لیے پابندی سے گھروں کا دورہ بھی کرتی رہتی ہیں۔ یہ دائیاں خواتین کو دوران حمل، بچے کی پیدائش اور بعد از پیدائش کے جسمانی اور ذہنی مسائل کے بارے میں بتاتی رہتی ہیں، ماؤں کو ان مسائل سے نمٹنے اور نوزائیدہ کی دیکھ بھال کے لیے مشورے دیتی ہیں۔
ذمہ داری اور اخلاقی مدد کا محور
اکتیس سالہ وھول جرمن صوبے ہیسے میں رہتی ہے۔ یہ ان دنوں دوسری بار حاملہ ہے۔ اسے اس بات کی بے حد خوشی ہے کہ اس بار بھی اُس کی دیکھ بھال وہی مڈ وائف کر رہی ہے جو پچھلی بار اُس کی اور اُس کے بچے کی نگہداشت کر رہی تھی۔ جرمنی میں تاہم مڈ وائفز کو بہت سی مشکلات کا سامنا ہے۔ سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ انہیں اپنی بہت مہنگی انشورنس کروانا پڑتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ بہت سی خواتین اس پیشے کو ترک کر دیتی ہیں۔ 2016 ء میں انہیں سال میں سات ہزار یورو سے زیادہ انشورنس فیس ادا کرنا پڑ رہی ہے اور 2017 ء میں اس فیس میں مزید اضافے کے ساتھ یہ 8 ہزار یورو سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔
ماؤں کی ہیلتھ کیئر کا ایک ستون
یاسمین کے والدین کا تعلق پاکستان سے ہے۔ اس ملک میں مڈ وائفز کی روایت بہت پُرانی ہے اور نسل در نسل چلی آرہی ہے۔ پاکستان میں دیہی علاقوں میں زیادہ تر بچے گھروں میں پیدا ہوتے ہیں، بغیر کسی ڈاکٹر کے۔ یاسمین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں خواتین کی اہمیت جرمنی جیسے صنعتی ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ پاکستان میں گرچہ خواتین اچھی ساکھ کی حامل ہیں لیکن پاکستان اور اس جیسے دیگر ممالک میں بچے پیدا کرنا کوئی آسان بات نہیں۔
دنیا بھر میں ہر سال قریب دو لاکھ ستاسی ہزار خواتین دوران حمل اور بچے کی پیدائش کے وقت کی پیچیدگیوں کے سبب لقمہ اجل بن جاتی ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال 2.9 ملین نو زائیدہ بچے پیدائش کے بعد پہلے ماہ میں ہی دم توڑ دیتے ہیں، وہ بھی ایسی بیماریوں یا پیچیدگیوں کے سبب جن کا سدباب ممکن ہے۔ یہ اموات زیادہ تر دیہی اور کم آمدنی والے علاقوں میں ہوتی ہیں۔