مہاجر کی ہلاکت: ہنگری کی اميگريشن پاليسی پر سواليہ نشان
6 جون 2016ہنگری کی پوليس نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو پير چھ جون کے روز جواب ديتے ہوئے بائيس سالہ شامی مہاجر کی ہلاکت کی تصديق کی۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين UNHCR نے اپنے ايک بيان ميں اس واقعے کی تحقيقات کا مطالبہ کيا تھا۔
پوليس بيان کے مطابق دريا کے ارد گرد گشت کرنے والی ايک ٹيم نے يکم جون کے روز صبح چھ بجے سے کچھ ہی لمحات قبل ’روزکے‘ نامی گاؤں کے قريب دو افراد کو ہنگری کی جانب تيرتے ہوئے ديکھا۔ یہ احساس ہونے پر کہ وہ پوليس اہلکاروں کی نظروں ميں ہيں، ان دونوں نے واپس سربيا کا رخ کيا تاہم صرف ايک ہی واپس لوٹ سکا اور دوسرا دريا ميں ڈوب کر ہلاک ہو گيا۔ بيان کے مطابق پوليس نے سربين حکام کو اس بارے میں مطلع کر ديا تھا۔ اس مہاجر کی لاش تين جون کے روز برآمد ہوئی۔
يو اين ايچ سی آر کے مطابق ہنگری کی جانب سے سربيا کے ساتھ اپنے دو ٹرانزٹ پوائنٹس پر سے يوميہ صرف پندرہ تا سترہ پناہ گزينوں کو داخلے کی اجازت، لوگوں کو انسانوں کے اسمگلروں کا سہارا لينے پر مجبور کر رہی ہے۔ کميشن کے وسطی يورپ کے ليے علاقائی نمائندے Montserrat Feixas Vihe کے مطابق، ’’جن حالات کے سبب يہ ہلاکت واقع ہوئی، ان کی بارڈر کے دونوں اطراف فوری اور تفصيلی تحقيقات کرائی جانا چاہييں۔‘‘ انہوں نے اپنے بيان ميں یہ بھی کہا کہ اس وقت ٹرانزٹ زونز پر سينکڑوں پناہ گزين ہنگری ميں پناہ کی درخواستيں دائر کرانے کے منتظر ہيں اور ان ميں اکثريت عورتوں اور بچوں کی ہے۔
ہنگری کے وزير اعظم وکٹور اوربان غير ملکيوں اور مہاجرين کے خلاف سخت گير موقف رکھتے ہيں۔ بوڈاپسٹ حکومت مہاجرين کی مختلف يورپی ملکوں میں تقسیم کے بارے میں يورپی يونين کی منظور شدہ اسکيم کو مسترد کر چکی ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے پچھلے ہی ہفتے يہ بھی کہا گيا ہے کہ سرحد کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ہنگری ميں تيز رفتار مقدمے، مہاجرين سے متعلق بين الاقوامی قوانين اور کنوشنوں کے خلاف ہو سکتے ہيں۔