مہاجرين دوست پاليسی جرمنی ميں حملوں کی قصور وار نہيں، جائزہ
4 اگست 2016جرمن چانسلر انگيلا ميرکل کا مہاجرين کے ليے سرحديں کھول دينے کا فيصلہ جرمنی ميں ہونے والے دو حاليہ حملوں کا سبب نہيں ہے۔ يہ انکشاف بدھ تين جنوری کے روز جاری کردہ ايک تازہ جائزے کے نتائج ميں کيا گيا ہے، جو ’اسٹرن‘ نامی ایک مقامی جريدے ميں شائع ہوئے۔ دارالحکومت برلن ميں قائم ’فورسا‘ نامی کمپنی کے اس جائزے ميں شامل انہتر فيصد جرمن شہريوں کے بقول گزشتہ ماہ جرمنی ميں ہونے والے دو حملوں کا تعلق پناہ کے ليے لاکھوں کی تعداد ميں جرمنی آنے والے تارکين وطن سے نہيں۔
جولائی سن 2016ء ميں جرمنی ميں مختلف مقامات پر مجموعی طور پر چار حملے ہوئے، جو تيرہ افراد کی ہلاکت اور درجنوں کے زخمی ہونے کا سبب بنے۔ مشرق وسطیٰ ميں سرگرم دہشت گرد تنظيم اسلامک اسٹيٹ نے ان ميں سے دو حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ يہ حملے اس کے ’سپاہيوں‘ نے کيے۔
يہ امر اہم ہے کہ سن 2015ء ميں سياسی پناہ کے ليے ايک ملين سے زائد مہاجرين نے جرمنی کا رخ کيا تھا۔ مہاجرين کی آمد ميں خاطر خواہ اضافہ قريب بارہ ماہ قبل ميرکل کے اس اعلان کے بعد ہوا جس ميں انہوں نے کسی ممکنہ انسانی الميے کو روکنے کے ليے مہاجرين کو ہنگری کی سرحد پار کرتے ہوئے آسٹريا اور پھر جرمنی آنے کی اجازت دے دی تھی۔ جرمن آئين ميں سياسی تشدد سے متاثرہ افراد کے ليے سياسی پناہ کی گنجائش ہے۔
’فورسا‘ کے جائزے ميں شامل صرف اٹھائيس فيصد افراد نے جنوبی صوبہ باويريا ميں ہونے والے حملوں کا قصور وار برلن حکومت کی پناہ گزينوں سے متعلق پاليسی کو قرار ديا۔ چانسلر ميرکل کی پاليسی کو قصور وار قرار دينے والوں ميں اٹھتہر فيصد وہ لوگ شامل ہيں، جو جرمنی ميں غير ملکيوں کی مخالف سياسی جماعت ’آلٹرنيٹو فار ڈوئچلانڈ‘ يا جرمنی کے ليے متبادل کے حامی ہيں۔
’فورسا‘ کے مطابق جائزے ميں حصہ لينے والے پچاس فيصد جرمن شہری اس حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہيں کہ آيا سکيورٹی حکام ملکی سلامتی کو يقينی بنانے کے ليے مکمل طور پر اہل يا تيار ہيں۔ اس کے برعکس چھياليس فيصد کا ماننا ہے کہ سکيورٹی حکام حالات پر قابو پانے اور عوام کو درکار سلامتی کا معيار فراہم کرنے کی صلاحيت رکھتے ہيں۔
جائزہ مرتب کرنے والی کمپنی ’فورسا‘ نے 1,007 افراد سے ان کی رائے پوچھی تھی اور جائزہ اٹھائيس اور انتيس جولائی کے دنوں ميں کيا گيا۔