’مہاجرين کی آمد سے جرائم ميں اضافہ نہيں ہوا‘
20 نومبر 2016ڈی ڈبليو: وفاقی جرمن پوليس کی موسم خزاں کی کانفرنس کا عنوان ’عالمی تنازعات اور بحرانوں کے بعد جرمنی ميں جرائم‘ تھا۔ کيا جرمنی ميں اتنی بڑی تعداد ميں مہاجرين کی آمد کے سبب جرائم کی شرح يا پھر دہشت گردانہ کارروائيوں ميں اضافہ ممکن ہے؟
ہولگر منچ : نہيں ايسا نہيں ہے۔ ہم گزشتہ برس موسم خزاں سے مہاجرين کی جانب سے کيے جانے والے جرائم کے اعداد و شمار ايک رپورٹ کی صورت ميں جمع کر رہے ہيں۔ ہم اس نتيجے پر پہنچے ہيں کہ مہاجرين کی آمد کے حوالے سے ديکھا جائے تو دراصل توقع سے کم جرائم ريکارڈ کيے گئے۔ شام، عراق اور افغانستان کے مہاجرين کی جانب سے کيے گئے جرائم کا مہاجرين کی کُل تعداد سے موازنہ کيا جائے، تو اوسطً کم جرائم کيے گئے ہیں۔ ہم نے ديکھا ہے کہ چند افريقی رياستوں کے کافی چھوٹے گروپ ہيں، جو عموماً جرائم ميں ملوث ہوتے ہيں اور ہميں ان پر توجہ مرکوز کرنی ہو گی۔
پوليس کو يہ بھی ديکھنا ہو گا کہ پناہ گزينوں کی صفوں ميں وہ لوگ بھی موجود ہيں، جنہيں مبينہ طور پر اسلامک اسٹيٹ نے يہاں بھيجا ہے۔ پوليس کو ان افراد کی بروقت شناخت اور گرفتاری کے ليے اضافی کارروائياں کرنی ہوں گی۔ ہم نے اس سلسلے ميں کچھ لوگوں کو حراست ميں ليا ہے، جن سے يہ بھی پتہ چلا ہے کہ يہ کافی بڑا نيٹ ورک ہے۔
پوليس نے دائيں بازو کی قوتوں کی جانب سے بھی بڑے پيمانے پر جرائم ديکھے ہيں۔ پوليس کو اس قسم کے جرائم سے نمٹنے کے ليے بھی فعال ہونا ہے۔ جرمن پوليس کو ان تمام اقسام کے جرائم سے نمٹنا ہے۔
ڈی ڈبليو: آپ گزشتہ دو برس سے جرمنی کی وفاقی پوليس کے سربراہ ہيں۔ انہی دو سالوں ميں مسلم انتہا پسندوں کی دہشت گردانہ کارروائياں بھی کافی بڑھی ہيں، پہلے پڑوسی ممالک ميں اور پھر جرمنی ميں بھی۔ آپ اس صورتحال کو کيسے ديکھتے ہيں؟
ہولگر منچ: ہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہيں کہ ہميں مستقبل کے چيلنجز کے ليے کس طرح اپنے آپ کو تيار کرنا ہو گا۔ اس کے ليے پوليس کو اندرونی طور پر بھی تبديلياں متعارف کرانا پڑيں گی۔ اس سے قبل چيلنجز مختلف تھے اور اس وقت ہمارا ڈھانچہ ان چيلنجز سے نمٹنے کے ليے موزوں تھا۔ جب ميں نے محکمے کی کمان سنبھالی، تو ميں نے ديکھا کے آئندہ برسوں ميں کافی بڑے اور مختلف چيلنجز کا سامنا ہے۔ ہميں يورپی سطح پر ديگر ملکوں کے ساتھ تعاون بڑھانا ہو گا۔ پوليس نيٹ ورک کو اور زيادہ فعال ہونا پڑے گا، بالخصوص ڈيجيٹل ميدان ميں۔ ہميں ان چيلنجز سے نمٹنے کے ليے کافی وسائل ديے گئے ہيں جن کی مدد سے ہم آئندہ برسوں ميں ان سے نمٹيں گے، جو کافی بڑا کام ہے۔
ڈی ڈبليو: آپ نے ڈيجيٹل ميدان کی بات کی۔ کيا جرائم کا ڈيجيٹلائز ہونا گلوبلائزيشن کا نتيجہ ہے؟
ہولگر منچ: سائبر اسپيس يا آن لائن جرائم کی کوئی حد نہيں۔ يہ دنيا کے کسی بھی حصے سے کيے جا سکتے ہيں۔ غير قانونی منڈياں سرور سائٹس کے مقامات تبديل کرتی رہتی ہيں۔ اس ہی ليے آپ کو بين الاقوامی سطح پر تعاون درکار ہے۔ ہميں اپنے کام ميں تيزی لانی ہو گی اور انٹرپول اور يورو پول جيسے پليٹ فارمز کو مزيد وسعت دينی ہو گی۔
ڈی ڈبليو: ڈيٹا کے تبادلے کے حوالے سے جرمن رياستوں اور يورپی پاليسی ساز حکام کے مابين تعاون کيسا ہے؟
ہولگر منچ: جرمنی ميں ہمارے پاس ’انپول‘ نامی سسٹم ہے، جس سے لوگوں کی شناخت کی جاتی ہے۔ يہی نظام ہميں اپنے نتائج کا تجزيہ کرنے ميں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔ مسئلہ يہ ہے کہ اب يہ کافی پرانا ہو چکا ہے۔ دراصل ايک نہيں بلکہ انيس مختلف سسٹمز ہيں جو کہ فعال ہيں، جن ميں رياستی پوليس ايجنسياں، وفاقی دفتر برائے جرائم، کسٹمز کے حکام وغيرہ شامل ہيں۔ ہر صوبے کا اپنا نظام ہے۔ اسی ليے ہميں ايک نئے جامع نظام کی ضرورت ہے۔
يورپی سطح پر بہت سے سسٹمز ہيں جو ايک دوسرے کے ساتھ کام نہيں کر سکتے۔ ہمارے پاس شينگن انفارميشن سسٹم بھی ہے۔ پوليس کے ليے يہ سب سے اہم نظام ہے۔ ليکن اس سسٹم کے ذريعے ’بايوميٹرک ڈيٹا‘ تک رسائی ممکن نہيں يعنی اس سسٹم کے ذريعے انگوٹھے کے نشانات تک رسائی ممکن نہيں۔
ڈی ڈبليو: شينگن انفارميشن سسٹم کب تک بايو ميٹرک ہو سکے گا؟
ہولگر منچ: اس ميں اب زيادہ وقت نہيں لگے گا۔ ہم ايک آزمائشی منصوبے پر کام کر رہے ہيں جس ميں جرمنی بھی شرکت کرے گا اور يہ آئندہ برس شروع ہو گا۔ بعد ازاں اس ميں تبديلياں بھی متعارف کرائی جائيں گی۔