1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مہاجرین خلاف سخت بیان، عدالت اور زیہوفر کے درمیان تصادم

29 جولائی 2018

جرمن وزیر داخلہ زیہوفر کی جانب سے سن 2015ء میں حکومت کی مہاجرین  دوست پالیسی کے نتیجے میں ملک میں تارکین وطن کی آمد کو ’لا قانونیت‘ سے مشابہت دینے پر تحفظ آئین کی ملکی عدالت کے صدر برہم ہوگئے۔ 

https://p.dw.com/p/32Gll
Pressekonferenz mit Horst Seehofer
تصویر: Reuters/F. Bensch

جنوبی جرمنی کے ایک اخبار سے گفتگو کرتے ہوئےآئینی عدالت کے صدر آندریاس فوسکئولے نے وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے مہاجرین کی آمد کے حوالے سے دیے گئے ایک تلخ بیان کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے کہا، ’’ یہ بیان نازی دور میں غیر قانونی اقدامات کے زمرے میں دیا گیا ہے، جو بالکل غلط ہے‘‘

دوسری جانب وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نےآئینی عدالت کے صدر کی تنقید کو ’نامناسب‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ تحفظ آئین کی عدالت کا بہت احترام کرتے ہیں لیکن عدالت کے صدر ’نام نہاد ماہر لسانیات‘ کا کردار ادا کرنے سے گریز کریں اور ان کے بیان کو نازی دور کے غیر قانونی اقدامات سے منسلک نہ کیا جائے۔

افغان مہاجر کی خودکشی کا ذمہ دار میں نہیں ہوں، زیہوفر

زیہوفر کا ماسٹر پلان، مہاجرت کی پالیسی تبدیل کرنے کی تیاری

قبل ازیں صدر فوسکئولے نے 2016ء میں زیہوفر کی جانب سے ملک میں داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد کو محدود کرنے کے مطالبے کو خلاف آئین قرار دیا تھا۔ مزید اس بات پر زور بھی دیا تھا کہ خانہ جنگی سے متاثرہ افراد کو پناہ فراہم کی جانی چاہیے۔

Seehofer und Merkel
تصویر: picture-alliance/dpa/B. von Jutrczenka

 کہا جاتا ہے کہ جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا میں چانسلر میرکل کی اتحادی جماعت کرسچین سوشل یونین کے سربراہ اور وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے گزشہ برس ستمبر میں ہونے والے عام انتخابات کے بعد صوبے میں تارکین وطن اور اسلام مخالف جماعت ’اے ایف ڈی‘ کی بڑھتی مقبولیت کو روکنے کے لیے مہاجرین مخالف پالیسی میں مزید سختی برتنا شروع کردی ہے۔

مہاجرت کا بحران، ’میرکل کے وزیر داخلہ مستعفی ہو جائیں گے‘

تاہم حال ہی میں کیے جانے والے ایک سروے کے نتائج کے مطابق سی ایس یو کی مقبولیت کی شرح سن 2013 کے مقابلے میں دس فیصد کم ہوئی ہے۔

 واضح رہے اکتوبر میں باویریا میں ہونے والے ریاستی انتخابات میں توقع کی جارہی ہے کہ اے ایف ڈی پہلی  مرتبہ  صوبائی اسمبلی تک پہنچ سکتی ہے۔

ع آ / ع ا (ڈی پی اے)

’اسلام جرمنی کا حصہ ہے یا نہیں‘