مہاجرین سے متعلق میرکل کی پالیسی، اتحادی کی مقدمے کی دھمکی
17 جنوری 2016جرمن وفاقی ریاست باویریا کے وزیر اعلیٰ اور حکومتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعت، سی ایس یو، کے سربراہ ہورسٹ زے ہوفر کا کہنا ہے کہ وہ آئندہ چند دنوں میں وفاقی حکومت سے جرمنی کی سرحدوں کی ’صورت حال بہتر بنانے‘ کے لیے تحریری مطالبہ کریں گے۔ زے ہوفر کے مطابق، ’’اگر حکومت نے مطالبات تسلیم نہ کیے تو مجبوراﹰ صوبائی حکومت وفاقی آئینی عدالت میں مقدمہ دائر کر دے گی۔‘‘
زے ہوفر اس سے قبل بھی بارہا جرمن چانسلر انگیلا میرکل پر ان کی مہاجرین دوست پالیسی بدلنے کے لیے ایسے الٹی میٹم دیتے رہے ہیں۔ تاہم ان کا حالیہ بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ انگیلا میرکل کا ’ہم یہ کر سکتے ہیں‘ کا نعرہ جرمنی میں غیر مقبول ہوتا جا رہا ہے۔
کولون میں ہونے والے جنسی حملوں کے بعد کیے گئے حالیہ جائزوں کے مطابق میرکل کی جرمنی میں مقبولیت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔
صوبائی وزیر خزانہ مارکوس سوئیڈر نے بھی جرمن جریدے اشپیگل سے کی گئی ایک گفتگو میں کہا تھا کہ تارکین وطن کے حوالے اختیار کی گئی حکومتی پالیسی کو جمہوری انداز میں منظور نہیں کیا گیا ہے۔ سوئیڈر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس بارے میں جرمن پارلیمان میں ووٹنگ کی جانا چاہیے۔
حکومتی اتحاد میں شامل دوسری بڑی سیاسی جماعت، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی (ایس پی ڈی) کے سینیئر رہنماؤں نے بھی حالیہ دنوں میں میرکل کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ہفتے کے روز ایس پی ڈی کے سربراہ زیگمار گابریئل نے مختلف علاقائی اخبارات سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں افراتفری سے نکل کر مہاجرت کو منظم کرنا ہو گا۔‘‘ گابریئل نے جرمن بارڈر کنٹرول کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مہاجرین کا کوٹہ مقرر کر کے جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد کی حد مقرر کی جا سکتی ہے۔
زے ہوفر نے یہ تجویز بھی پیش کی ہے کہ رواں برس جرمنی آنے والے تارکین وطن کی زیادہ سے زیادہ تعداد دو لاکھ مقرر کر دی جائے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ رواں برس جرمنی آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں ’نمایاں کمی‘ کی جائے گی۔ تاہم انہوں نے مہاجرین کی زیادہ سے زیادہ تعداد کی حد مقرر کرنے کے مطالبے کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا ہے کہ جرمن سرحدوں کو بند کیے بغیر حد مقرر کرنا ناممکن ہو گا۔
جرمنی میں تارکین وطن کی تعداد میں کمی کے لیے میرکل یورپی یونین کے رکن ممالک کو پناہ گزینوں کی تقسیم کے منصوبے پر قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں میرکل ترکی کی جانب سے مہاجرین کو یورپ کا رخ کرنے سے روکنے کے لیے اقدامات پر بھی انحصار کر رہی ہیں۔ لیکن ان منصوبوں پر عمل درآمد کی رفتار سست روی کا شکار ہے۔
جرمنی کے نائب چانسلر زیگمار گابریئل کا کہنا ہے، ’’اگر موسم بہار تک (تارکین وطن کی تعداد کم کرنے کے لیے) اقدامات مؤثر نہ ہوئے تو پناہ گزینوں کی بڑی تعداد سے نمٹنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘
دوسری جانب جرمنی کے وزیر خزانہ وولف گانگ شوئبلے نے میرکل کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مہاجرین کے بحران کا حل یورپ کی بیرونی سرحدوں پر تلاش کرنا ہو گا۔ شوئبلے کا کہنا تھا، ’’اس حوالے سے وقت بہت محدود ہے اور یورپ میں پیش رفت بہت سُست ہے۔‘‘
گزشتہ روز شوئبلے نے يورپی براعظم کو درپيش مہاجرين کے بحران سے نمٹنے کے ليے درکار رقوم جمع کرنے کے ليے پيٹرول مصنوعات پر ٹيکس بڑھانے کی تجويز پيش کی تھی۔