مہاجرین پر پابندی، ٹرمپ انتظامیہ کا دفاع
11 اگست 2017جمعرات کے روز ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا کہ صدر کو امریکی قانون یہ اختیارات دیتا ہے کہ وہ غیرملکیوں کہ امریکا میں داخلے سے روک سکیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے جاری کردہ حکم نامے کے تحت چھ مسلم اکثریتی ممالک کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی کے ساتھ ساتھ مہاجرین کے امریکا میں داخل ہونے پر بھی عارضی پابندی عائد کی گئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے عہدہ صدارت سنبھالنے کے کچھ ہی عرصے بعد جب پہلی بار یہ احکامات جاری کیے تو متعدد امریکی عدالتوں نے ان احکامات کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ تاہم بعد میں صدر ٹرمپ کی طرف سے ترامیم شدہ حکم نامہ جاری کیا گیا جسے امریکی سپریم کورٹ نے جزوی طور پر قبول کر لیا تھا۔
اس سلسلے میں سپریم کورٹ نے صدارتی احکامات کے قانونی ہونے یا نہ ہونے سے متعلق مقدمے کی سماعت دس اکتوبر کو رکھی ہے۔ اس سلسلے میں یہ مراسلہ حکومتی موقف کی وضاحت کرتا ہے، جس کے تحت امریکی صدر کو ایسا کوئی حکم نامہ جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
امریکی ریاست ہوائی اور مہاجرین کے تحفظ کی تنظمیوں نے اس حکم نامے کو عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔ امریکی ریاست اور مہاجرین دوست تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ حکم نامے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران یہ تک کہا تھا کہ ’مسلمانوں کے امریکا میں داخلے پر مکمل پابندی ہونا چاہیے۔‘‘ تاہم ایک امریکی عدالت نے کہا تھا کہ انتخابی مہم کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کا بیان ایک ’عام امریکی‘ کے طور پر تصور کیا جائے گا اور اس پر بحث نہیں کی جائے گی۔
سپریم کورٹ کے لیے مراسلے میں ٹرمپ انتظامیہ نے موقف اپنایا ہے کہ قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے صدر کے پاس اس طرز کے فیصلے کا اختیار ہے اور کسی دہشت گردانہ حملے سے قبل مشتبہ افراد کی مکمل جانچ پڑتال کے لیے انتظامیہ کو وقت درکار ہے۔
اس مراسلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ امریکی کانگریس نے صدر کو مہاجرین کی تعداد محدود کرنے سے متعلق مکمل اختیارات تفویض کیے ہیں اور وہ کسی بھی غیرملکی فرد یا گروپ کو ملکی مفاد میں امریکا میں داخلے سے روک سکتے ہیں۔