مہاجرین کا بحران، ترکی اور یورپی یونین کی سمٹ آئندہ ماہ
19 فروری 2016یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کی کوشش کے سلسلے میں ترکی کے ساتھ خصوصی سمٹ آئندہ ماہ کے اوائل میں منعقد کی جائے گی۔
جمعے کے دن ٹسک کی طرف سے جاری کردہ بیان میں مزید کہا گیا، ’’ہم اتفاق کرتے ہیں کہ اس بحران کے تناظر میں ترکی کے ساتھ ’مشترکہ ایکشن‘ لینا، ہماری ترجیح ہے اور اس مقصد کے لیے تمام ممکن اقدامات اٹھائیں گے۔‘‘
برسلز میں جاری یورپی یونین کی سمٹ میں تمام رکن ریاستوں نے متفقہ طور پر یہ بھی کہا ہے کہ مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے کسی رکن ریاست کی طرف سے ’یک طرفہ‘ ایکشن لینا مناسب نہیں ہے۔ تاہم آسٹریا نے کہا ہے کہ وہ ملک میں پناہ کی درخواستیں جمع کروانے کی ایک خاص حد کا تعین کرنا چاہتا ہے۔ آج اس مذمت کے باوجود ویانا حکومت نے اپنے اس منصوبے پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کہا ہے کہ ترکی کے ساتھ یہ خصوصی سمٹ پانچ تا سات مارچ کو منعقد کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے یورپی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ اس بات کا جائزہ بھی لیں کہ ترکی کے ساتھ گزشتہ برس نومبر میں ہونے والی سمٹ میں طے کیے جانے والے اقدامات کس قدر موثر ثابت ہوئے ہیں۔
گزشتہ برس منعقد ہونے والی اس سمٹ میں انقرہ حکومت نے اتفاق کیا تھا کہ وہ مہاجرین کو یورپ داخل ہونے سے روکنے کی خاطر ٹھوس اقدامات اٹھائے گی۔ اس کے عوض یونین نے ترکی کو تین بلین یورو کی امداد دینے کا عہد بھی کیا تھا۔
تاہم یورپی حکام کا کہنا ہے کہ بحیرہ ایجیئن کو عبور کرتے ہوئے ہزاروں مہاجرین اب بھی ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ اٹھائیس رکنی یورپی یونین کا کہنا ہے کہ انقرہ کو مزید سخت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ یورپ پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں کمی ممکن ہو سکے۔
ترکی اور یونین کی گیارہ رکن ریاستوں کی سمٹ یورپی یونین کے سربراہی اجلاس سے قبل جمعرات کو ہونا تھی لیکن انقرہ میں دھماکے کے بعد ترک وزیر اعظم نے اس میں شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
برطانیہ کے معاملے پر پیشرفت
جمعرات کو شروع ہونے والی یورپی یونین کی سمٹ کا آج دوسرا اور آخری دن ہے۔ اس سمٹ میں مہاجرین کے بحران کے علاوہ برطانیہ کے یونین کا حصہ رکھنے پر لندن حکومت کی شرائط پر کسی سمجھوتے تک پہنچنے کی کوشش بھی کی جا رہی ہے۔
ڈونلڈ ٹسک نے کہا ہے کہ برطانیہ کے معاملے پر کچھ مثبت پیشرفت ہوئی ہے لیکن دیگر یورپی سفارتکاروں نے کہا ہے کہ کسی حتمی ڈیل کے لیے مزید وقت درکار ہو گا۔ ٹسک کے مطابق، ’’ ابھی تک کی پیشرفت پر میں یہی کہوں گا کہ کامیابی ہوئی ہے لیکن ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ایک برطانوی سفارتکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں اداروں کو بتایا ہے کہ اہم معاملات پر ابھی بھی اختلافات موجود ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ برطانیہ اور یورپی یونین کے مابین کوئی معاہدہ طے پانے کے کافی امکانات ہیں۔
برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کمیرون نے اٹھائیس رکنی یورپی یونین کا حصہ رہنے کی خاطر کچھ شرائط رکھیں ہیں۔ اگر یورپی رہنما اس تناظر میں کسی سمجھوتے پر نہ پہنچے تو امکان ہے کہ برطانیہ اس بلاک سے خارج ہونے والا پہلا ملک بن جائے گا۔