مہاجرین کا بحران، یونان کی سیاحت بھی متاثر
11 مارچ 2016مالیاتی مسائل اور مہاجرین کے بحران کے باوجود اب ایتھنز حکومت پرعزم ہے کہ وہ سیاحت کی صنعت میں نئی روح پھونکے گی۔ اس مقصد کے لیے یونانی حکومت نے یورپی یونین کے ساتھ مل کر ایک نیا منصوبہ بنایا ہے۔ یونان کی وزیرِ سیاحت ایلینا کوآناٹارو کے مطابق، ’’سال 2016 سیاحت کے لیے ایک اچھا برس ثابت ہو گا۔‘‘
ایلینا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہمیں یقین ہے کہ صورتحال بدل جائے گی۔ گزشتہ برس کچھ مسائل تھے لیکن اب استحکام پیدا ہو رہا ہے۔‘‘ خاتون وزیر نے مزید کہا کہ یورپی یونین کی سطح پر مشاورت کا عمل جاری ہے جبکہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد میں بھی کمی پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے۔‘‘
عالمی اقتصادی کساد بازاری سے بری طرح متاثر ہونے والے ملک یونان میں سیاحت ایک فائدہ مند بزنس سمجھا جاتا ہے۔ سیاحت کا شعبہ ملک کی قومی مجموعی پیداوار میں بیس فیصد کا حامل ہے۔
ایک اندازے کے مطابق یونان میں ہر پانچ ملازمتوں میں سے ایک سیاحت کے شعبے سے ہی جڑی ہوئی ہے۔ گرم موسم اور سورج کی تیپش کے لیے یورپ بھر کے ممالک بالخصوص برطانوی اور جرمن باشندوں کی ایک بڑی تعداد یونان کا رخ کرنے کو پسند کرتی ہے۔
تاہم گزشتہ کچھ ماہ سے بحیرہ ایجیئن مہاجرین اور پناہ گزینوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اسی سمندری راستے سے ترکی میں موجود مہاجرین یونان کا رخ کر رہے ہیں۔ یہ مقام یورپ پہنچنے کی خواہش رکھنے والے مہاجرین کا ایک بڑا ٹھکانہ بن چکا ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے دوران ایک لاکھ اکتیس ہزار مہاجرین اسی بحری راستے سے یونان پہنچنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ ان میں سے ایک لاکھ بائیس ہزار مہاجرین یونان کے ساحلوں پر پہنچنے میں کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ گزشتہ برس یونان کے مختلف جزیروں پر پہنچنے والے ان مہاجرین کی تعداد آٹھ لاکھ چالیس ہزار تھی۔
یونانی جزیرے کوس کے مئیر جیورجوس کیریٹیس کے مطابق مغربی میڈیا نے جس طرح اس بحران کی تصویر کشی کی ہے وہ مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے شکایت کی کہ تصاویر میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ جیسے کوس میں موجود مہاجرین کی حالت بہت بری ہے اور وہ سڑکوں پر رہنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ اس بحران میں یونان کے کردار کی مناسب تصویر کشی کے لیے انٹرنیٹ پر ایک مہم جلد شروع کریں گے۔