مہاجرین کا مسئلہ، ہسپانوی وزیراعظم کو سیاسی بحران کا سامنا
4 اگست 2018گزشتہ ہفتے شمالی افریقہ میں موجود ہسپانوی علاقے سبتہ کی سرحدی باڑ پھلانگ کر دوسری جانب اترتے ہوئے سینکڑوں افریقی تارکین وطن کی تصاویر نے ہسپانوی عوام کی توجہ اس مسئلے کی جانب مبذول کرا دی ہے۔
اسپین میں سول گارڈز کی تنظیم کا کہنا ہے کہ مہاجرین کی جانب سے آتشیں گولوں اور بوتلوں سے حملے کے نتیجے میں سرحدی پولیس کے بائیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ چھ سو سے زائد افریقی مہاجرین اسپین میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
اس واقعے نے آبنائے جبرالٹر پار کر کے رواں برس موسم گرما میں اسپین پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اوسط سے زائد اضافہ کیا ہے۔ ہسپانوی وزارت داخلہ کے اعداد وشمار کے مطابق قریب بائیس ہزار مہاجرین غیر قانونی طور پر افریقہ سے اسپین پہنچے ہیں۔ مہاجرین کی اس بڑھتی ہوئی تعداد کے اسباب میں اٹلی اور یونان کے راستوں کی بندش اور موسم گرما ہیں۔
رواں برس جون میں وزیر اعظم پیڈرو سانچیز کے وزارت عظمی کا منصب سنبھالنے کے بعد سے اسپین میں مہاجرت ایک سنگین سیاسی مسئلہ بن گیا ہے۔ سانچیز نے وزیراعظم بننے کے فوراﹰ ہی بعد ایک این جی او کے بحری جہاز پر موجود چھ سو تارکین وطن کو اس وقت اسپین میں داخلے کی اجازت دی تھی جب مالٹا اور اٹلی کی حکومتوں نے ان مہاجرین کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ہسپانوی نیشنل ریسرچ کونسل سے وابستہ ماہر سیاسیات خوزے فرنانڈس البرٹوس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ حکومت کی پوزیشن کمزور ہے۔ لیکن اس کے باوجود مہاجرت کے مسئلے پر کوئی اقدام اٹھانا اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ اس موضوع پر مذاکرات کرنا اتنا بھی مشکل نہیں۔‘‘
فرنانڈس البرٹوس کے خیال میں مہاجرت طویل المدتی طور پر اسپین کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔
اسپین کے نو منتخب صدر پالو کاسادو جن کا تعلق ملک میں حزب اختلاف پیپلز پارٹی سے ہے، نے گزشتہ اتوار کو مہاجرت پر ایک واضح مہاجرین مخالف پالیسی اپنائی ہے۔
کاسادو نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں کہا تھا،’’لاکھوں مہاجرین یورپ آنے کے لیے سرحد عبور کرنے کے منتظر ہیں۔ ان تمام کو تو پناہ نہیں دی جا سکتی۔ ہمیں یہ بیانیہ اختیار کرنا ہو گا خواہ یہ سیاسی طور پر نا درست ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ سن 2015ء میں یورپ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد مہاجرین کے سب سے بڑے بحران کا سامنا کیا تھا، جس دوران ایک ملین سے زائد تارکین وطن یورپی یونین میں داخل ہوئے تھے۔ ان تارکین وطن کی ایک بہت بڑی تعداد ترکی سے بحیرہء ایجیئن کے راستے یونان پہنچی تھی اور پھر بلقان کے خطے سے ہوتی ہوئی مغربی اور شمالی یورپی ممالک میں منتقل ہو گئی تھی۔
ص ح / ع ت