مہاجرین کو روکنے والا بحری مشن انسانوں کی اسمگلنگ میں مددگار
7 فروری 2017جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جرمنی کی وفاقی حکومت نے بائیں بازو کی سیاسی جماعت کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ یورپی سرحدوں کی نگرانی پر تعینات یورپی یونین کے ’’آپریشن صوفیہ‘‘ نامی بحری مشن سے دراصل مہاجرین کی آمد روکنے کی بجائے انسانوں کے اسمگلروں کی مدد ہو رہی ہے۔
دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں
جرمنی میں پناہ کی تمام درخواستوں پر فیصلے چند ماہ کے اندر
برلن حکومت کے اس تحریری جواب کو ’’فُنکے میڈیا گروپ‘‘ نے شائع کیا جس میں لکھا گیا ہے کہ انسانوں کی اسمگلنگ میں ملوث گروہ ایک طریقہ کار کے تحت جانتے بوجھتے مہاجرین سے لدی کشتیاں سرحدی نگرانی پر مامور بحری بیڑوں کے قریب لاتے ہیں۔ اسمگلروں کے ان گروہوں کو معلوم ہے کہ نگران بحری جہاز ’’بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہنگامی طبی امداد مہیا کرنے کے پابند ہیں۔‘‘
جرمن حکومت نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ ایسی معلومات کے باعث ’’انسانوں کے اسمگلروں نے اپنا کاروبار کا طریقہ کار نئی صورت حال کے مطابق تبدیل کر لیا ہے۔‘‘
جون 2015ء میں شروع کیے گئے اس یورپی مشن میں جرمن بحری جہاز بھی شامل ہیں۔ بحیرہ روم میں تعینات ان بحری جہازوں کا مقصد انسانوں کے اسمگلروں کے خلاف کارروائی اور مہاجرین کی یورپ آمد روکنا ہے۔ 2015ء کے وسط سے لے کر اب تک جرمن بحریہ نے قریب ساڑھے نو ہزار تارکین وطن کو سمندر میں ڈوبنے سے بچایا جب کہ یورپی یونین کے دیگر ممالک کے بحری جہاز بھی 22 ہزار سے زائد مہاجرین کو بحیرہ روم میں ڈوبنے سے بچا چکے ہیں۔
اسی دوران 351 کشتیوں کو تباہ بھی کیا گیا جنہیں اسمگلر مہاجرین اور تارکین وطن کو پورپ کی سرحدی حدود میں میں پہنچانے کے لیے استعمال کر رہے تھے۔
گزشتہ ہفتے مالٹا میں منعقد ہونے والی یورپی سمٹ کے دوران یورپی سربراہان نے بحری راستوں کے ذریعے مہاجرین کی یورپ آمد روکنے کے لیے دس نکاتی منصوبے پر اتفاق کیا تھا۔ اس منصوبے میں یہ بھی شامل ہے کہ لیبیا کے ساحلی محافظوں کو معاونت فراہم کی جائے تاکہ وہ ملکی سمندری حدود ہی میں مہاجرین کی کشتیاں روک سکیں۔ علاوہ ازیں لیبیا میں مہاجرین کے کیمپ بنانے کے لیے بھی معاونت فراہم کی جائے گی۔