مہاجرین کے استقبالیہ مراکز یونین سے باہر منتقل کرنے پر غور
13 جون 2018جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور حکومتی اتحادیوں کے مابین غیر قانونی مہاجرت کے مسئلے پر اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں لیکن چانسلر میرکل اور ان کے آسٹرین ہم منصب سباستیان کرُس کے مابین ملاقات کے بعد چانسلر میرکل کو یورپی یونین کی سطح پر ممکنہ طور پر ایک نیا اتحادی ضرور مل گیا۔
جرمنی کے دورے سے واپسی کے بعد چانسلر کُرس نے آسٹرین میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ یونین کے دیگر رکن ممالک کے ساتھ یورپ کی جانب غیر قانونی مہاجرت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک نئے منصوبے پر گفتگو کر رہے ہیں۔ آسٹرین رہنما کے مطابق یہ نیا منصوبہ یورپی یونین کی حدود سے باہر تارکین وطن کی رجسٹرین کے ابتدائی مراکز کے قیام سے متعلق ہے۔
ملکی پبلک براڈ کاسٹر او آر ایف سے گفتگو کرتے ہوئے کُرس کا کہنا تھا، ’’مہاجرین کو یورپ میں ایک بہتر زندگی مہیا کرنے کی بجائے کوششیں یہ کی جا رہی ہیں کہ یورپی یونین کی حدود سے باہر تارکین وطن اور مہاجرین کے لیے ایسے مراکز قائم کیے جائیں جہاں انہیں رہائش، تحفظ اور پناہ فراہم کی جا سکے۔‘‘
دوسری جانب جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے اس موقف کا دفاع کیا ہے کہ تارکین وطن کے مسئلے کا حل یورپی سطح پر نکالا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ان ممالک کو ہی ساری ذمے داری نہیں اٹھانا چاہیے، جہاں مہاجرین پہنچتے ہیں۔
جرمن حکومت میں شامل میرکل کی اتحادی چھوٹی قدامت پسند جماعت سی ایس یو کے منصوبوں کے مطابق مستقبل میں پناہ کے متلاشی لیکن پہلے سے رجسٹرڈ تارکین وطن کا جرمنی کی قومی سرحدوں سے ہی واپس بھیجا جانا ممکن ہونا چاہیے۔
آسٹریا کے چانسلر سباستیان کُرس کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد میرکل نے کہا کہ ویانا کو یونین کی بیرونی سرحدوں کی بہتر حفاظت کے لیے تیز رفتار فیصلے کرنا ہوں گے۔ یکم جولائی سے چھ ماہ کے لیے یونین کا صدر ملک آسٹریا ہو گا۔
ڈنمارک کے وزیر اعظم لارس لوکے راسموسن نے بھی گزشتہ ہفتے یورپی یونین کی حدود سے سے باہر تارکین وطن کے لیے خصوصی مراکز کے قیام کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ دیگر ممالک سے اس معاملے پر مشاورت جاری ہے۔ تاہم راسموسن کے مطابق یہ مراکز یورپ میں پناہ کے متلاشی ایسے افراد کے لیے بنائے جائیں گے جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد کی جا چکی ہیں۔
آسٹرین چانسلر یا ان کے ڈینش ہم منصب سمیت کسی رہنما نے تاہم یہ واضح نہیں کیا کہ ان مجوزہ مراکز کا قیام کس جگہ عمل میں لایا جائے گا۔ چانسلر کُرس سے میڈیا نے پوچھا کہ کیا البانیا میں ایسے مراکز کے قیام کی اطلاعات درست ہیں تو ان کا کہنا تھا، ’’یہ ہم بعد میں دیکھیں گے۔‘‘
ش ح / ع ص (ڈی پی اے، اے پی)