مہاجرین کے حوالے سے ترک یورپی یونین معاہدہ بے جان ہو چکا
5 نومبر 2016آسٹرین وزیرِ دفاع ہنس پیٹر ڈوسکوسِیل نے کہا ہے کہ مہاجرین کے حوالے سے یورپی یونین اور ترکی کے مابین ہوئے معاہدے کے ممکنہ خاتمے کے تناظر میں یورپی یونین کو اپنی بارڈر سکیورٹی مضبوط کرنا ہو گی۔ آسٹرین وزیرِ دفاع کے مطابق اس معاہدے کے خاتمے کے بعد تارکین وطن کا ایک بڑا ریلا یورپ کی طرف آنے کا امکان ہے۔
آسٹریا کے وزیرِ دفاع ڈوسکوسِیل نے جرمن اخبار ’بلڈ‘ کو دیے ایک انٹرویو میں کہا ،’’ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ ترک یورپی یونین معاہدہ ایک عارضی اقدام ہونا چاہیے، تاوقت کہ خود یورپی یونین مؤثر انداز میں اپنی بیرونی سرحدوں کی حفاظت اور تارکینِ وطن کے بہاؤ کو روکنے کی پوزیشن میں نہ آ جائے۔ اور اب یہ اقدام اٹھانے کا وقت قریب آ گیا ہے۔‘‘
ڈوسکوسِیل کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے آئندہ ہفتے کے آغاز میں وسطی یورپ کی ریاستوں کے وُزرائے دفاع کو ویانا آنے کی دعوت دی ہے تاکہ مشرکہ اقدامات کرنے اور ترکی میں صورتِ حال کے حوالے سے بات چیت کی جا سکے۔
آسٹرین وزیر دفاع کا یہ بیان مہاجرین کے حوالے سے رواں برس مارچ میں ہونے والے ترک یورپی یونین معاہدے کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔ ترکی اور یونین کے مابین مہاجرین کی آمد سے متعلق یہ معاہدہ رواں برس مارچ میں طے پایا تھا۔ معاہدے کے مطابق ترکی سے غیر قانونی طور پر یونانی جزیروں پر پہنچنے والے تارکین وطن کو واپس ترکی بھیج دیا جاتا ہے۔
تارکین وطن کو اس غیر قانونی اور خطرناک سمندری سفر سے روکنے یا واپس ترکی بھیج دینے کے عوض یونین ترکی میں مقیم شامی مہاجرین کی آباد کاری میں مدد کے لیے مالی معاونت بھی فراہم کر رہی ہے۔
اس معاہدے پر عمل درآمد کے بعد سے بحیرہ ایجیئن کے راستوں سے یورپ کا رخ کرنے والے تارکین وطن کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔ تاہم ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد یونین اور ترکی کے مابین تناؤ میں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث اس معاہدے کی ناکامی کے خدشات بھی کافی زیادہ ہو چکے ہیں۔
دوسری جانب ترک وزیر خارجہ مولو چاوش اولُو نے اِس ہفتے تجویز پیش کی ہے کہ اگر یورپی یونین ترک شہریوں کو یورپ میں بغیر ویزا سفر کرنے کی اجازت نہیں دیتی تو انقرہ حکومت کو چاہیے کہ رواں برس کے آخر تک مہاجرین کو روکنے کے لیے یورپ سے طے کردہ معاہدہ ختم کر دے۔