میانمار میں صورتحال بگڑتی ہوئی، دو مظاہرین ہلاک
20 فروری 2021میانمار کے دوسرے بڑے شہر منڈالے میں ملکی سکیورٹی فورسز نے فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین پر ربڑ کی گولیوں کے علاوہ براہ راست گولیاں بھی چلائیں۔ اس کارروائی میں کم از کم دو افراد کے ہلاک ہونے کا بتایا گیا ہے۔ ان کے علاوہ ڈھائی درجن سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔ کچھ زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔
کینیڈا اور برطانیہ نے بھی میانمار کے جرنیلوں پر پابندیاں عائد کردیں
منڈالے میں مظاہرے کی وجہ
ہفتہ بیس فروری کو بڑے دریا ایراوادی کے کنارے پر قائم یادناربون شپ یارڈ میں سینکڑوں پولیس اور فوج کے اہلکاروں کی آمد سے قریبی علاقے کے لوگوں میں بے چینی پیدا ہو گئی۔ ان کو یہ احساس ہوا کہ سکیورٹی اہلکار شپ یارڈ کے مزدوروں کو فوجی حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے کے تناظر میں گرفتار کرنے پہنچی ہے۔
اس صورت حال کو بھانپتے ہوئے لوگوں نے بتدریج جمع ہونا شروع کر دیا۔ جب ان کی تعداد خاصی زیادہ ہو گئی تو انہوں نے فوجی حکومت اور سکیورٹی اہلکاروں کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی۔ مظاہرین پولیس اور فوجی اہلکاروں کی شپ یارڈ سے واپسی کا مطالبہ بھی کر رہے تھے۔
میانمار کی فوج: ریاست کے اندر ایک اور ریاست
سکیورٹی فورسز کی کارروائی
شپ یارڈ کے باہری علاقے میں جمع سکیورٹی فورسز کے نگران افسر نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پہلے ربڑ کی گولیوں کا استعمال کیا لیکن اس کارروائی نے مظاہرہ کرنے والوں میں شدت پیدا کر دی۔ پولیس کے مطابق نعرہ بازی کرنے والوں کو منتشر کرنے کے لیے پہلے انتباہی فائرنگ بھی کی گئی لیکن مظاہرین کی بے چینی اور ناراضی کو دیکھتے ہوئے انجام کار فائرنگ کا سہارا لینا پڑا۔
منڈالے کی ایمرجنسی سروس کے مطابق فائرنگ سے دو افراد کی موت ہوئی۔ ان مرنے والوں میں ایک لڑکا بھی شامل ہے۔ ایمرجنسی سروس کا کہنا ہے کہ قریب تیس زخمیوں میں سے نصف کو گولیاں لگی ہیں اور چند ایک کی حالت تشویش ناک ہے۔
یورپی یونین کی تشویش
منڈالے میں مظاہرین پر گولیاں چلانے کی مذمت یورپی یونین کی جانب سے سامنے آئی ہے۔ یونیں کے خارجہ امور کے سربراہ یوزیپ بوریل نے اپنے مذمتی بیان میں کہا کہ سکیورٹی فورسز کو پرامن مطاہرین پر گولیاں چلانے کی بظاہر کوئی ضرورت نہیں تھی۔
میانمار میں بڑے مظاہرے، شاہراہیں بلاک
یوزیپ بوریل نے میانمار میں پرتشدد واقعات میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والے اضافے پر گہری تشویش بھی ظاہر کی۔ انہوں نے فوجی حکومت اور سکیورٹی فورسز کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی تلقین کی ہے۔
مظاہروں کا سلسلہ
میانمار میں رواں برس یکم فروری کو خاتون رہنما آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت نیشل لیگ برائے ڈیموکریسی کی حکومت فوج نے اُس دن ختم کر دی تھی جس دن نئی پارلیمنٹ کا افتتاحی اجلاس طلب کیا گیا تھا۔ فوج نئی پارلیمنٹ کے الیکشن پر تحفظات رکھتی ہے اور اس کے مطابق گزشتہ برس نومبر کے پارلیمانی انتخابات میں عدم شفافیت پائی جاتی تھی۔
فوجی اقدام کے بعد سے میانمار کی عوام ملکی اقتدار پر قابض فوج کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مظاہرین میں طلبہ، نوجوان، اساتذہ، ڈاکٹرز، طبی عملہ اور سرکاری ملازمین بھی شامل ہیں۔ ینگون میں بدھ مت کے بھکشوؤن نے بھی ایک احتجاجی ریلی نکالی تھی۔
ع ح، ا ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)