میانمار میں فوج کا اقتدار پر قبضہ: عالمی تنقید اور تشویش
1 فروری 2021پیر یکم فروری کو میانمار کی فوج نے نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی کی حمایت یافتہ سیاسی حکومت کو فارغ کرتے ہوئے تمام اہم سیاسی رہنماؤں کو حراست میں لے لیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں آنگ سان سوچی اور ملکی صدر وِن مِنٹ بھی شامل ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ برائے ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے اہم رہنماؤں کے ساتھ ساتھ سرگرم کارکنوں اور ان کے حامی حکومتی اہلکاروں کو بھی گرفتاریوں کا سامنا ہے۔میانمار: ملک پر فوج کا کنٹرول، آنگ سان سوچی حراست میں
میانمار کی فوج نے نو نومبر کو ہونے والے انتخابات کو غیر شفاف قرار دیا ہے اور نئے انتخابات ایک سال میں کرانے کا بھی اعلان کیا۔ اس الیکشن میں ایک مرتبہ پھر سوچی کی سیاسی جماعت این ایل ڈی کو واضح کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
فوج کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں جہاں واضح کیا گیا کہ حکومتی اختیارات فوج کے سربراہ نے سنبھال لیے ہیں وہاں یہ بھی کہا گیا کہ فوج کے سربراہ نے صرف ایک سال کے لیے اختیارات سنبھالے ہیں۔ فوج نے یہ انتہائی اقدام پیر کے روز نئی پارلیمنٹ کے افتتاحی اجلاس سے قبل اٹھایا۔
اس فوجی اقدام پر عالمی سطح پر اور خاص طور پر مغربی اقوام کی شدید مذمت اور تنقید سامنے آئی ہے۔
جرمن حکومت کا مؤقف
جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے فوج کے اقتدار پر قبضہ کرنے کو افسوس ناک خیال کرتے ہوئے فوج کے جرنیلوں سے کہا ہے کہ وہ ملک کے جمہوری اداروں کا احترام کریں۔ انہوں نے تمام گرفتار سیاسی رہنماؤں اور اراکینِ پارلیمنٹ کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ماس کے مطابق فوج کے اقتدار پر قبضے نے تمام جمہوری پیش رفت کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کا بیان
پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان نے میانمار کی تازہ صورت حال پر کہا ہے کہ میانمار میں ہونے والی پیشرفت کا قریب سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ دفتر خارجہ کے اعلامیہ کے مطابق، ''امید کرتے ہیں کہ دونوں فریقین تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے قانون کی بالادستی برقرار رکھیں گے اور پرامن نتائج کی طرف گامزن ہوں گے۔‘‘میانمار کی فوج جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی، تفتیشی پینل
یورپی یونین
یورپی اقوام کے بلاک کے صدر شارل مشیل نے پرزور انداز میں فوج کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنا اور احترام دینا سبھی فریقوں کی ذمہ داری ہے۔ مشیل نے میانمار میں جمہوری عمل کی مکمل بحالی کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے چیف جوسیپ بوریل نے اپنے بیان میں کہا کہ میانمار کی عوام جمہوریت کے متمنی ہیں اور یورپی یونین ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈیئر لائن نے بھی اپنے مذمتی بیان میں جمہوری حکومت کی بحالی اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اقوام متحدہ
اقوام متحدہ نے میانمار میں اقتدار پر فوج کے قبضے کی مذمت کے ساتھ ساتھ مقید کیے جانے والے سیاسی رہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ عالمی ادارے کے سربراہ انٹونیو گوٹیرش نے میانمار میں ہونے والی پیش رفت کو انتہائی تشویشناک قرار دیا۔ انہوں نے اسے جمہوری اصلاحاتی عمل کے لیے شدید دہچکہ بھی خیال کیا۔ انہوں نے فوجی قیادت کو تشدد اور اجتناب برتنے کے علاوہ انسانی حقوق کا احترام کرنے کی تلقین کی ہے۔
امریکی مخالفت
امریکا نے میانمار میں ملکی فوج کے اقدام کی مخالفت کی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ اقدام حالیہ الیکشن کے نتائج کو تبدیل کرنے پر بھی منتج ہو سکتا ہے۔ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ فوج کی کارروائی جمہوریت کی جانب منتقلی کے سفر کو پٹری سے اتار سکتا ہے۔ امریکا نے ضرورت محسوس ہونے پر ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا عندیہ بھی دیا ہے۔
اسی طرح نئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی میانمار کی فوج سے کہا ہے کہ آنگ سان سوچی سمیت تمام سیاسی افراد کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کو اس صورت حال پر خصوصی بریفنگ بھی دی گئی ہے۔" فوج کورونا کی آڑ میں اپنا سیاسی ایجنڈا پھیلا رہی ہے"
برطانوی وزیر اعظم
برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے فوجی بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوج کو پارلیمانی انتخابات میں لوگوں کے جمہوری روایات کی حمایت میں دیے گئے ووٹوں کا احترام کرنا چاہیے۔ جانسن نے بھی تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ برطانوی حکومت فوجی قیادت سے پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ وہ جتنی جلد ممکن ہو سکے جمہوریت کو بحال کرے۔
چین کا محتاط ردِعمل
چین نے میانمار کو اپنا ایک دوست ملک قرار دیتے ہوئے کہا کہ فریقین اختلافات کو دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے حل کرنے کی راہ یقینی طور پر اپنائیں گے۔ وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن کا مزید کہنا تھا کہ میانمار میں تمام ذمہ دار حلقے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اور سیاسی و سماجی استحکام کے تناظر میں ملکی معاملات کو خوش اسلوبی سے آگے بڑھائیں گے۔ چین نے میانمار میں پیدا صورت حال کو مزید سمجھنے کو بھی اہم قرار دیا۔
دیگر ممالک کی تشویش
آسٹریلیا، سنگا پور، سوئٹزرلینڈ اور بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک کی حکومتوں نے بھی میانمار میں فوج کے اقتدار پر قبضے اور جمہوری حکومت کو ختم کیے جانے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ مختلف ملکوں نے فوج سے کہا ہے کہ وہ اپنے اٹھائے ہوئے اقدام کو ریورس کرے اور جمہوری روایات کی پاسداری بھی کرے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج میانمار کی عوام کی جمہوریت، آزادی، امن اور ترقی کی خواہشات کو عزت دے اور تمام اختلافی معاملات کو دستوری طریقہ کار کے ذریعے حل کرے۔ ایسا ہی ردِعمل ملائیشیا اور انڈونیشیا کی جانب سے بھی سامنے آیا ہے۔
میانمار میں کام کرنے والی جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر انٹرنیشنل کمپنیوں نے بھی نئی صورت حال پر غور کرنا شروع کر دیا ہے کہ آیا وہ اپنے معمول کے آپریشنز جاری رکھیں۔میانمار: فوجی کارروائی کے سبب ہزاروں افراد گھر چھوڑنے پر مجبور
آسیان تنظیم کے رکن ممالک
جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان میں شامل کئی رکن ریاستوں نے میانمار میں پیدا ہونے والی صورت حال کو داخلی معاملہ قرار دیا ہے۔ تھائی لینڈ، کمبوڈیا اور فلپائن نے بھی فوج کے اقتدار پر قابض ہونے کو داخلی معاملہ خیال کیا۔ تنظیم کی جانب سے ابھی تک کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا ہے۔ تھائی لینڈ میں میانمار سے تعلق رکھنے والے ورکرز اور تارکین وطن نے فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی حکومت کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ ایسا ہی مظاہرہ نیپال میں مقیم میانمار کی کمیونٹی نے بھئ کیا۔
ع ح، ع آ (روئٹرز، اے ایف پی، اے پی)