میانمار کا دیو ہیکل بندرگاہی منصوبہ اور ماحولیاتی خدشات
6 جون 2011تاہم ضروری نہیں ہے کہ یہ تبدیلی بہتری کا ہی باعث بنے گی۔ اِس علاقے کو ایک وسیع و عریض بندرگاہی کمپلیکس کے لیے منتخب کیا گیا ہے، جو تھائی لینڈ کے ایک بڑے صنعتی ادارے کی نگرانی میں دَس سال کے عرصے میں آٹھ ارب ڈالر کی لاگت سے تیار ہو گا۔ اس منصوبے کے تحت 250 مربع کلومیٹر کے علاقے میں ایک اسٹیل مل، ایک فرٹیلائزر پلانٹ، کوئلے سے چلنے والا ایک بجلی گھر اور تیل صاف کرنے والا ایک کارخانہ بھی لگایا جائے گا۔
یہ منصوبہ اس چیز کی بھی ایک نمایاں مثال ہے کہ کیسے مغربی ملکوں کی پابندیوں کے باوجود چین اور تھائی لینڈ جیسے ایشیائی حلیف ممالک اس ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے یہاں تبدیلی لا رہے ہیں۔
کچھ حلقوں کے خیال میں اِس داوائی ڈیویلپمنٹ پراجیکٹ کے نتیجے میں میانمار کی کمزور معیشت کو سہارا ملے گا، تقریباً ایک لاکھ افراد کو روزگار ملے گا اور علاقائی تجارت کو انقلابی بنیادوں پر فروغ حاصل ہو گا۔ اس کے برعکس کچھ دیگر حلقے یہ خدشات ظاہر کر رہے ہیں کہ اس منصوبے کے نتیجے میں یہاں ماحول کو آلودہ کرنے والی صنعتیں قائم کی جائیں گی اور ہزاروں لوگوں کو اپنے آبائی گھر چھوڑ کر دیگر مقامات پر منتقل ہونا پڑے گا۔
تحفظ ماحول کے علمبردار ایک مقامی امدادی کارکن نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ داوائی کے علاقے میں، جہاں اُس کا بچپن گزرا، ابھی سے تبدیلیاں آنا شروع ہو چکی ہیں۔ اُس نے بتایا کہ داوائی کے سفید ریت والے ساحل بے انتہا خوبصورت ہیں لیکن اور چند برسوں میں یہ سب کچھ قصہء پارینہ بن کر رہ جائے گا۔ اِس کارکن کے اندازے کے مطابق اس منصوبے کے باعث غالباً 23 ہزار انسانوں کو اپنے آبائی گھر چھوڑنا پڑیں گے۔
اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس منصوبے سے سب سے زیادہ فائدہ تھائی لینڈ کو ہو گا۔ آج کل تھائی برآمدات لے کر مغرب کی جانب سفر کرنے والے جہازوں کو سنگاپور کے اوپر سے ہو کر آنا پڑتا ہے۔ اس بندرگاہ کے ساتھ ساتھ تھائی لینڈ کی سرحد تک نئی رابطہ شاہراہ کی بھی تعمیر سے تھائی برآمد کنندگان کو اِس مہنگے سفر سے نجات مل جائے گی۔ ساتھ ساتھ مشرقِ وُسطیٰ کا خام تیل بھی آسانی سے اس راستے سے تھائی لینڈ پہنچ سکے گا۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: کشور مصطفیٰ