میانمار کو ہتھیار فروخت نہ کیے جائیں، اقوام متحدہ
19 جون 2021اقوام متحدہ میں جمعہ 18 جون کو منظور کی گئی قرارداد پر عمل کرنا رکن ملکوں کے لیے قانونی طور پر لازم نہیں، تاہم آنگ سان سوچی کی حکومت کو برطرف کرنے والی میانمار کی فوجی جنتا کے خلاف یہ بین الاقوامی مخالفت کا سخت اظہار ہے۔
اس قرارداد کی تائید 119 ممالک نے کی جب کہ صرف بیلاروس نے اس کی مخالفت کی۔ چین، روس، بھارت اور 33 دیگر ممالک نے اس قرارداد پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
یہ ووٹنگ اس وقت ہوئی ہے جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میانمار کی صورت حال پر باضابطہ بات چیت کر رہی ہے۔ میانمار میں یکم فروری کو بغاوت میں فوج نے منتخب حکومت کا تختہ پلٹ دیا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے ووٹنگ سے قبل اپنے خطاب میں کہا، ”ہم ایک ایسی دنیا میں نہیں رہ سکتے جہاں فوجی بغاوت ایک معمول بن جائے۔ یہ یکسر ناقابل قبول ہے۔"
میانمار کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی سفیر کرسٹین شارنر برگنر کا کہنا تھا کہ فوجی بغاوت کے بعد وہاں ”بڑے پیمانے پر خانہ جنگی کا حقیقی خطرہ لاحق ہے۔"
انہوں نے کہا، ”یہ عمل کرنے کا وقت ہے، فوجی قبضے کو ختم کا موقع ضائع ہوتا جا رہا ہے۔"
میانمار کے سفیر نے فوجی جنتا کے خلاف ووٹ دیا
اقوام متحدہ میں میانمار کے سفیر کاو موئے ٹن ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ انہوں نے بغاوت اور فوجی جنتا کے ان دعوؤں کو مسترد کر دیا کہ وہ (کاو موئے) اب ملک کی نمائندگی نہیں کرتے۔
اس قرارداد پر عمل کرنا لازمی نہ ہونے کے باوجود یہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ فوجی جنتا اور مظاہرین کے خلاف اس کی کارروائیوں کے خلاف بین الاقوامی مخالفت کی واضح نشانی ہے۔
اس قرارداد میں فوج سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا ہے کہ وہ ”پرامن مظاہرین کے خلاف ہر طرح کے تشدد کو فوراً بند کرے۔"
اقوام متحدہ میں یورپی یونین کے سفیر اولف اسکوگ کا کہنا تھا، ”یہ آج کی تاریخ میں میانمار کی صورت حال پر سب سے جامع اور سخت ترین مذمت ہے۔"
سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ
ملک کی منتخب سربراہ آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کے دیگر عہدیدار اب بھی نظر بند ہیں۔
فوجی جنتا کا کہنا ہے کہ اس نے اقتدار پر اس لیے قبضہ کیا کیونکہ حکومت نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کے الزامات کا جواب دینے میں ناکام رہی۔ حالانکہ بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ انتخابات آزادانہ اور منصفانہ طورپر منعقد ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں این ایل ڈی بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی۔
فوج کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے ہی میانمار میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ وہ جمہوریت کو بحال کرنے اور سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اسسٹنس ایسوسی ایشن فار پولیٹیکل پریزنرز نامی ایک تنظیم کے مطابق مظاہرین کے خلاف فوج کی کارروائیوں میں اب تک 800 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ج ا / ا ب ا (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)