میانمار کی نظربند رہنما سوچی کی 65ویں سالگرہ
19 جون 2010ان کی سالگرہ کے موقع پر جاری کئے گئے تہنیتی پیغام میں امریکی صدر باراک اوباما نے جرأت و حوصلے، انسانی حقوق اور جمہوریت کے لئے کوششوں پر سوچی کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا، ’میں برما کی حکومت سے ایک مرتبہ پھر کہتا ہوں کہ آنگ سان سوچی اور دیگر سیاسی قیدیوں کو غیرمشروط اور فوری طور پر رہا کر دیا جائے تاکہ وہ اپنے ملک کی خوشحالی اور استحکام کے لئے کام کر سکیں، ایک ایسا ملک جہاں تمام شہریوں کے حقوق کا احترام کیا جائے۔‘
اس موقع پر ملائیشیا کے وزیر اعظم نجیب رزاق نے میانمار میں مصالحت کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ کا کہنا ہے کہ سوچی کی بدستور حراست میانمار کے آئندہ انتخابات کے حوالے سے شکوک و شبہات کا باعث بنی ہوئی ہے۔
میانمار میں سوچی کے حامیوں نے ان کی سالگرہ کے موقع پر مختلف شہروں میں تقریبات منعقد کیں۔ اس موقع پر انہوں نے سالگرہ کے روایتی جشن کے ساتھ ساتھ سوچی کی رہائی کے لئے دعائیں بھی مانگیں۔
ٹوکیو، آک لینڈ اور واشنگٹن میں بھی ان کی سالگرہ کے موقع پر مشعل بردار جلوس اور ریلیوں کا اہتمام کیا گیا۔ اِ دھر یورپ میں پراگ میں ایک دیوار پر سوچی کی تصویر نصب کر کے انسانی حقوق کے کارکنوں نے ان کے لئے پیغامات لکھے۔ سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس پر بھی ان کے لئے پیغامات کی بھرمار ہے۔
رواں ہفتے اقوام متحدہ کے ایک ورکنگ گروپ نے آنگ سان سوچی کی نظربندی کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا۔
نوبل امن انعام یافتہ سوچی گزشتہ تقریباً 15برس سے قید یا نظر بند چلی آ رہی ہیں۔ فوجی حکومت نے انہیں آئندہ انتخابات میں حصہ لینے سے بھی روک رکھا ہے۔ ان کی جماعت نے 1990ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم انہیں کبھی اقتدار میں آنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
آنگ سان سوچی کو میانمار میں ’دی لیڈی‘ کہا جاتا ہے اور وہ آزادی کی ایک علامت بنی ہوئی ہیں۔ وہ ینگون میں اپنے ہی گھر میں مقید ہیں، جہاں دو خاتون خدمت گار ان کے ساتھ موجود ہیں۔ تاہم انہیں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی سہولت حاصل نہیں، جس کی وجہ سے بیرونی دُنیا سے ان کا رابطہ منقطع ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: امجد علی