1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میاں صاحب چابی والا گُڈا نہیں ہیں!

30 دسمبر 2021

کراچی کے علاقے نائن زیرو میں ان دنوں سکوت ہے۔ یہاں کے بھائی یعنی الطاف حسین یہاں نہیں، ان کی جلا وطنی کو کئی دہائیاں گزر گئیں۔ ایک وقت تھا کہ وہ بھائی یہاں موجود نہیں تھے مگر پھر بھی بھائی بھائی کی صدا گونجا کرتی تھی۔

https://p.dw.com/p/44zDX
Archivbild - Nawaz Sharif, ehemaliger Premierminister
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. M. Chaudary

الطاف حسین کارکنان سے خطاب کرتے تھے، جسے سارا ملک نیوز چینلز پہ لائیو دیکھتا تھا۔ اس خطاب کا بیشتر حصہ اس پکڑم پکڑائی میں گزر جاتا تھا کہ بھائی روہانسی ہو کر بیان کرتے، ''اپنے پیاروں سے پچھڑنےکا کرب  تنہا سہہ رہا ہوں، بس فیصلہ کر لیا ہے، میں پاکستان آ رہا ہوں، اب اپنے لوگوں سے دور نہیں رہ سکتا، نہیں رہ سکتا، نہیں رہ سکتا۔‘‘

جواب میں ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے پریشاں حال رہنما باری باری مائیک کے قریب آتے ''نہیں بھائی نہیں! ہمیں آپ کی جان عزیز ہے، خطرات ابھی ٹلے نہیں، آپ پاکستان نہ آئیں۔‘‘

بھائی پھر ایک ادا سے ناراض ہو جاتے، یکے بعد دیگرے کارکنان بھی آوازیں نکالنے لگتے، '' نہیں بھائی نہیں ‘‘ اور یوں ایک قرارداد منظور ہوتی کہ بھائی فی الحال پاکستان نہیں آ رہے۔

اِن دنوں پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی واپسی بھی کچھ ایسی ہی چل رہی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ وہاں الطاف حسین لندن سے براہ راست خطاب میں واپسی کا سفر کئی بار کر چکے، یہاں تجزیہ کار اندازے لگا رہے ہیں کہ میاں صاحب کی واپسی کی سواری  ڈیل سے  بندھی ہے۔

اب اللہ ہی جانے کہ اس کے پیچھے کیا راز ہے کہ دفاعی تجزیہ کاروں، دفاعی ٹویٹ بازوں اور بعض ن لیگی رہنماؤں نے یک مشت واپسی کی تان کھینچی ہے۔

Pakistan | DW Blogger Iffat Hasan Rizvi
عفت رضوی، بلاگرتصویر: privat

نواز شریف کی واپسی کا بہانہ ملا تو میں نے بہت عرصے بعد چچا گیرو کو فون لگایا۔ آدھا گھنٹہ تو یہ بات کھا گئی کہ میں کال نہیں کرتی۔ پھر باقی کا نصف گھنٹہ صرف چچا کی بھڑاس سنتے نکل گیا کہ ن لیگ والوں نے بیچارے میاں صاحب کا تماشا سا بنا رکھا ہے۔

نئے پڑھنے والوں کے لیے ایک سطر کا تعارف کافی ہو گا کہ چچا گیرو ن لیگ کے نظریاتی، جذباتی، انقلابی بلکہ اندھا دھند کارکن ہیں۔ عمر زیادہ ہو گئی ہے اس لیے کبھی کبھار غصہ زیادہ ہی کر جاتے ہیں۔

چچا گیرو کی واہی تباہی جاری تھی کہ میں نے معلومات میں اضافہ کیا کہ  ن لیگی رہنما حنا پرویز بٹ نے کہا ہے، ''میاں صاحب جدوں آوے گا لگ پتا جاوئے گا۔‘‘

آگے سے چچا تلملائے، یہ دھمکی میاں صاحب کو تو نہیں؟ کیا یہی مطلب ہوا اس پیغام کا کہ میاں صاحب جدوں آوے گا، لاہور ایئرپورٹ خالی پاوے گا؟

میں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا کہ ہوسکتا ہے حنا پرویز نے میاں صاحب کی ہمت بڑھانے کے لیے نعرہ مارا ہو۔ نیت پہ شک نہیں کرنا چاہیے۔ ایسے تو مائزہ حمید گجر بھی ٹوئٹر پہ فرماتی ہیں کہ نواز شریف آرہے ہیں روک سکو تو روک لو۔

چچا گیرو مزید سلگ گئے، ''لاحول ولا، یہ سارے  اس بوڑھے شیر کو بند گلی میں پھنسا کر خود ٹھنڈے ٹھار نکل لیں گے۔ میری تو میاں صاحب سے ہاتھ جوڑ کر درخواست ہے کہ یہاں کا رخ نہ کریں، ان کی صحت اور زندگی قیمتی ہے، وہ لندن میں بیٹھ کر بھی تحریک چلا سکتے ہیں۔‘‘

معروف تجزیہ کار سلیم صافی نے چند روز قبل ایک اعلان کیا تھا کہ میاں نواز شریف جنوری میں وطن واپسی کا منصوبہ بنا رہے ہیں، منصوبے کے مطابق واپسی میں جیل جائیں گے، عدالتوں سے ریلیف لیں گے، وہ اسکرپٹ سے مطمئن ہیں۔

مگر صافی صاحب کے اس اعلان پہ چچا گیرو جیسے گمنام ن لیگی کارکن کو بڑا اعتراض ہے۔کہنے لگے، ''کیا ان تجزیہ کاروں نے میاں صاحب کو چابی والا گڈا سمجھ رکھا ہے، کبھی ان کی تقریروں میں بغاوت ڈھونڈتے ہیں کبھی عوامی انقلاب ٹٹولتے ہیں۔ بھائیو! میرا لیڈر دل کی ایک مہلک بیماری میں مبتلا ہے، اس نے مملکت کی بڑی خدمت کی ہے، وہی خدمت اب اس کی پارٹی کرے گی مگر اس بیمار کو بخش دو۔ آج بھی وہ دن یاد کروں تو جی ہول جاتا ہے، جب میاں صاحب کے پلیٹلیٹس گر گئے تھے۔‘‘

چچا گیرو نظریات میں الجھے سیاسی کارکن ہیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ ن لیگ موجودہ حالات اور اگلے الیکشن میں شریف یا غیر شریف اور اگر شریف تو کون سا والا شریف جیسی بحث سے باہر نکلے۔ ن لیگ اپنی صفوں میں موجود قائدین کو موقع دے۔

خواجہ سعد رفیق اپنے کئی انٹرویوز اور پارٹی جلسوں میں کھلے بندوں یہ کڑوا سچ کہہ چکے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں شاہی سلطنتوں میں تبدیل ہو گئیں۔ ووٹ کروڑوں مگر سڑکوں پر لاکھ بندہ نہیں نکال پاتے۔

سعد رفیق کا شکوہ بھی جلد دور ہوتا نظر آتا ہے۔ لاکھ بندہ نکالنے کے لیے اور  قربانی دینے نواز شریف خود آرہے ہیں۔ لندن سے نکالے جا رہے ہیں یا ڈیل سے بلائے جا رہے ہیں، ہر تین صورتوں میں ان کی واپسی ملکی سیاست میں گیم چینجر ہو گی۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔