میر شکیل الرحمان کی ضمانت منظور، صحافتی حلقوں کا خیر مقدم
9 نومبر 2020پاکستان میں صحافتی حلقوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ سینئر صحافیوں اور تجزیہ نگاروں نے اسے ملک میں قانون کی عملداری اور آزادی اظہار کے لیے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا۔
'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ' سمیت صحافت کی عالمی تنظیمیں ایک عرصے سے ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ ناقدین کے مطابق میر شکیل الرحمان کے خلاف نیب کا کیس عمران خان حکومت کی طرف سے میڈیا کو دبانے کی بدترین مثال کے طور پر سامنے آیا۔
میر شکیل الرحمن پر نیب نے لاہور میں زمین کی غیرقانونی خریداری کا الزام لگاتے ہوئے انہیں آٹھ ماہ سے زیر حراست رکھا۔
پاکستان: صحافیوں اور سماجی کارکنوں پر حملے، اقوام متحدہ کی مذمت
پیر کو ان کی ضمانت کی منظوری سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس قاضی امین پر مشتعمل تین رکنی بینچ نے دی۔
دوران سماعت میر شکیل کے وکلا نے عدالت کو بتایا کہ میر شکیل پر لاہور میں، جس زمین کی لین دین کا الزام ہے، وہ انہوں نے 34 سال پہلے خریدی تھی۔ وکلا کے مطابق زمین کی خریداری اس دور کے قواعد و ضوابط کے مطابق تھی اور اس میں قومی خزانے کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔
میر شکیل کے وکیل امجد پرویز نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے ایک نجی شخص کی درخواست پر ان کے موکل کو مارچ کو گرفتار کیا حالانکہ اس وقت معاملہ انکوائری کی سطح پر تھا۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نیب نے اس کیس کا ریفرنس سابق وزیراعظم نواز شریف اور میر شکیل الرحمان سمیت چار افراد کے خلاف دائر کیا لیکن گرفتاری صرف میر شکیل کی عمل میں آئی۔
نیب کا الزام ہے کہ سن انیس سو چھیاسی میں اس وقت کے وزیراعلیٰ نواز شریف نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے ڈی جی لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور ڈائریکٹر لینڈ کے ذریعے میر شکیل کو زمین دی۔ تاہم اطلاعات کے مطابق ان الزامات کے حوالے سے نیب کے وکلا عدالت کو قائل نہ کر سکے۔
تین رکنی بینچ نے دونوں طرف کے وکلا سے سوال جواب کے بعد ضمانت کی درخواست ایک کروڑ روپے کے مچلکوں کے عوض منظور کرنے کا حکم دے دیا۔