’میرا دم گُھٹ رہا ہے‘: لا تعداد انسانوں کی پکار
26 جون 2020'تشدد کا نشانہ بننے والے افراد کی حمایت کا عالمی دن‘ ایک ایسے موقع پر منایا جا رہا ہے جب حالیہ دنوں میں انسانیت سوز چند ایسے واقعات پر ساری دنیا کی توجہ مرکوز ہوئی ہے جنہوں نے اس ترقی یافتہ دور میں انسانی اخلاقی اقدار کی تنزلی پر سے پردہ اُٹھایا ہے۔
آج تشدد کا نشانہ بننے والے افراد کے لیے آوازیں اٹھانے والوں کو یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ وہ ' تشدد‘ کی تعاریف و تشریح کس پیمانے اور کس پیرائے میں کریں۔ کس معاشرے میں کون سا عمل ' تشدد‘ کے زمرے میں آتا ہے؟، کس عمل یا رویے کو تشدد مانا جاتا ہے؟ عوام الناس میں کس حد تک اس بارے میں شعور پایا جاتا ہےاور ان الجھی ہوئی گتھیوں کو کیسے اور کون سلجھا سکتا ہے؟
اس موضوع پر طبع آزمائی کرتے وقت ایک حساس مصنف کا نا تو ذہن کام کرے گا نا ہی قلم۔
اس عالمی دن کی مختصر تعریف
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 12 دسمبر سن 1997 کو ایک قرارداد 52/149 کے ذریعہ 26 جون کو تشدد کے متاثرین کی حمایت میں عالمی دن کا اعلان کیا تھا۔ اس دن کا مقصد تشدد اور دیگر ظلم و بربریت ، غیر انسانی برتاؤ یا سزا کے خلاف کنونشن کا سہارا لیتے ہوئے ایسے انسانیت سوز رویے کے دنیا سے خاتمے کو ممکن بنانا تھا۔
اس عالمی ادارے کا اس بارے میں یہ موقف ہے کہ تشدد یا اذیت رسانی بین الاقوامی قوانین کے تحت جرم ہے۔ اس پر پابندی لگائی جانی چاہیے اور کسی بھی حالت میں اس کا جواز نہیں پیش کیا جا سکتا۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرش کے مطابق ''اذیت دینے والوں کو کبھی بھی ان کے جرائم سے دستبردار ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور تشدد کے نظاموں کو ختم یا تبدیل کیا جانا چاہیے۔‘‘
انسانی حقوق کا عالمی سطح پر گلا گھٹ رہا ہے
اس بار اس عالمی دن پر سب سے زیادہ جس واقعے کے گہرے سائے چھائے نظر آ رہے ہیں وہ حال ہی میں امریکا میں ایک افریقی نژاد امریکی باشندے جارج فلوئیڈ کی سفید فام پولیس کے ہاتھوں تشدد کی کارروائی کے نتیجے میں ہونے والی موت کا واقعہ ہے۔ اس ایک واقعے کے سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آنے کے بعد جس طرح دنیا کے مختلف خطوں اور ممالک میں نسلی پرستی اور دیگر امتیازی سلوک کے خلاف جس طرح سے عوامی مظاہرے ہوئے ہیں وہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ کوئی بھی معاشرہ تشدد اور بربریت سے پاک نہیں ہے۔
فلوئیڈ کیس نے دراصل بہت سے معاشروں میں پائے جانے والے اُس احساس کو ایک بار پھر جگا دیا ہے جس کو تاریخ کے ابواب تک میں بند کر کے دبانے کی کوشششیں کی جاتی رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے تشدد کے واقعات پر خصوصی رپورٹنگ کرنے والے نامہ نگار نِلس ملزر نے ڈوئچے ویلے کو اس بارے میں خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا، '' میرے لیے سب سے زیادہ تشویش اور پریشانی کی بات یہ ہے کہ تمام دنیا میں اس وقت انسانی حقوق کا گلا گھوٹا جا رہا ہے۔ چین ہو یا ہانگ کانگ، ایغور مسلم اکثریت کا معاملہ ہو یا امریکا میں سیاہ فام باشندوں کا، روس میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک ہو، ہر جگہ تشدد کا بازار گرم ہے اور یہ سب کے سب عالمی فوجداری عدالت کے قوانین و ضوابط پر ضرب لگا رہے ہیں۔‘‘
نِلس ملزر نے خاص طور سے مہاجرین ، تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے ساتھ دنیا بھر میں ہونے والے ناروا سلوک پر گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا، شام سے لے کر برازیل تک، عالمی ہجرت کا بحران ہر جگہ نظر آ رہا ہے، ہر جگہ انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ یہ فہرست جتنا جی چاہے لمبی کرتے جائیں، مجھے پریشانی اس امر کی ہے کہ اس رجحان نے آج کے ورلڈ آرڈر کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔‘‘
اس سال، تشدد کا نشانہ بننے والے افراد کی حمایت کے عالمی دن کے موقع پر سیاہ فام امریکی باشندے جارج فلوئیڈ کیس دراصل ایک عالمی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی موت جس طرح واقعے ہوئی، اُس پورے عمل پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جارج فلوئیڈ کی گردن پر ایک امریکی پولیس افسر کا گھٹنا، چند منٹوں کے اندر اس کی زندگی کو موت میں بدلنے کا سبب بن گیا۔ جسمانی طور پر اس کا دم گھٹا اور وہ جان کی بازی ہار گیا۔
اس منظرکو اگر بڑے کینوس پر دیکھا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے مختلف معاشروں میں اس وقت کمزور، مجبور، نادار لاتعداد انسان ایسے ہیں جن کا دم جنگ و جارحیت، غربت، افلاس، جہالت، بیماریاں، وبائیں، بھوک، جسمانی اور روحانی زیادتیاں، جبری شادیاں، جبری گمشدگیاں، فرسودہ روایات، دقیانوسی اقدار اور نہ جانے کون کون سے عوامل گھوٹ رہے ہیں۔ جارج فلوئیڈ کے آخری الفاظ تھے، '' میرا دم گھٹ رہا ہے۔‘‘
آج عالمی برادری سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ کہاں کہاں، کن کن طاقتوں کے ظلم و بربریت تلے کتنے نوزائیدہ بچوں سے لے کر، ہر عمر اور صنف سے تعلق رکھنے والے انسانوں کا گلا گھٹ رہا ہے؟
کشور مصطفیٰ