میرا کوئی آف شور اکاؤنٹ نہیں، نواز شریف کا عدالتی بیان
3 نومبر 2016پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جمعرات تین نومبر کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق پاناما لیکس میں نواز شریف کے اہل خانہ کے نام آنے کے بعد ان پر الزام ہے کہ ان کے اور ان کے اہل خانہ کے سمندر پار بینکوں میں مبینہ طور پر کئی خفیہ اکاؤنٹس موجود ہیں۔
اس بارے میں اسلام آباد میں پاکستانی سپریم کورٹ کی طرف سے شریف خاندان کے مالیاتی امور کی چھان بین جاری ہے، جس دوران وزیر اعظم نواز شریف نے عدالت میں پیش کردہ ایک تحریری بیان میں اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے کوئی آف شور بینک اکاؤنٹس نہیں ہیں۔
نواز شریف کے اہل خانہ کے ناموں کا ذکر دنیا کے کئی دیگر بڑے سیاسی اور کاروباری خاندانوں کے افراد کے ناموں کے ساتھ ان دستاویزات میں آیا تھا، جنہیں پاناما لیکس کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ دستاویزات پاناما میں ایک قانونی فرم کی ملکیت تھیں، جن کے اچانک لیکن کئی ملکوں میں ہلچل مچا دینے والے افشاء کو ہی پاناما لیکس کہا جاتا ہے۔
نواز شرہف کے قانونی مشیر ظفر اللہ نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ نواز شریف کی طرف سے سپریم کورٹ میں تحریری موقف پیش کیے جانے کے بعد عدالت نے پاکستانی وزیر اعظم کے بچوں کو اس بارے میں وضاحت کے لیے مزید وقت دے دیا ہے کہ وہ اپنے خلاف ان الزامات پر اپنا ردعمل ظاہر کریں کہ ان میں سے چند کے آف شور بینک اکاؤنٹس موجود ہیں۔
نواز شریف کا سپریم کورٹ میں آج کا تحریری بیان ایک ایسے وقت پر پیش کیا گیا ہے، جب اسی ہفتے اسلام آباد میں اپوزیشن رہنما عمران خان نے اپنے بے شمار حامیوں کے ساتھ ایک ایسے احتجاجی دھرنے کی کال دے رکھی تھی، جس کا مقصد نواز شریف کو ان کے خلاف مبینہ مالی بدعنوانی کے الزامات کے تناظر میں مستعفی ہونے پر مجبور کرنا تھا۔
اسلام آباد کو بند کر دینے کا اعلان کرنے والے عمران خان نے اپنی پارٹی کی طرف سے احتجاجی دھرنے کا پروگرام اس وقت منسوخ کر دیا تھا، جب ملکی سپریم کورٹ نے یہ اعلان کیا تھا کہ وہ پاناما لیکس کے حوالے سے شریف خاندان کے خلاف لگائے گئے الزامات کی چھان بین کر رہی ہے۔