میرکل کے جواب نے فلسطینی بچی کو رُلا دیا
16 جولائی 2015خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے آج جمعرات کو بتایا کہ وفاقی چانسلر انگیلا میرکل بدھ پندرہ جولائی کے دن جب شمال مشرقی شہر روسٹاک کے ایک اسکول میں منعقدہ تقریب کے دوران بچوں سے ملاقات میں مصروف تھیں تو ریم نامی ایک فلسطینی بچی نے میرکل سے مخاطب ہو کر اس اندیشے کا اظہار کیا کہ اگر اس کے والدین کی طرف سے دی گئی پناہ کی درخواست مسترد کر دی گئی تو اس کا خاندان جرمنی چھوڑنے پر مجبور ہو جائے گا۔
ریم نے انگیلا میرکل سے مخاطب ہوتے ہوئے جرمن زبان میں بڑی روانی سے کہا تھا، ’’یہ انتہائی مشکل ہے کہ میں اوروں کو دیکھوں کہ وہ تو یہاں اپنی زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جبکہ میں خود لطف اندوز نہیں ہو سکتی۔‘‘ اس بچی نے مزید کہا کہ اس کی خواہش ہے کہ وہ جرمنی میں یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرے۔ ریم گزشتہ چار برس سے جرمنی میں زیر تعلیم ہے جبکہ اس نے جرمن کے علاوہ انگریزی زبان بھی سیکھ رکھی ہے۔
ریم کی اس بات پر چانسلر میرکل نے کہا، ’’سیاست بعض اوقات کافی مشکل ہوتی ہے۔ آپ ایک انتہائی اچھی بچی ہیں۔ لیکن آپ جانتی ہیں کہ لبنان میں قائم فلسطینی مہاجرین کے کیمپوں میں بھی ہزاروں افراد مقیم ہیں۔ اگر ہم ان سب کو یہاں بلا لیں تو ہم اس کے لیے انتظامات نہیں کر سکیں گے۔‘‘
جرمن سربراہ حکومت کے اس جواب پر ریم رو پڑی تو میرکل نے آگے بڑھ کر اس طالبہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا، ’’لیکن آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے۔‘‘ اس پر اس تقریب کے نوجوان میزبان نے انگیلا میرکل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ریم نے تو ’اپنی مشکل زندگی‘ کے بارے میں بات کی ہے۔ اس پر چانسلر نے پلٹ کر کہا، ’’میں جانتی ہوں کہ یہ ایک مشکل صورتحال ہے۔ اسی لیے میں اسے تسلی دینا چاہتی ہوں۔‘‘ میرکل نے مزید کہا کہ مہاجرین کو جرمنی بلا کر اس طرح کی مشکل صورتحال میں نہیں ڈالنا چاہیے۔
سیاسی مبصرین بالخصوص اپوزیشن گرین پارٹی کے بہت سے سیاستدانوں نے اس واقعے پر جرمن چانسلر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جرمن سربراہ حکومت نے اس موقع پر انسانی ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کے برعکس چند حلقوں کا کہنا ہے کہ میرکل نے اس بچی کی بات کا درست انداز میں جواب دیا کیونکہ جھوٹا وعدہ کرنے کے بجائے ایمانداری سے کام لینا بہتر ہے۔
جرمنی میں تارکین وطن کی آمد ایک اہم موضوع ہے۔ افغانستان، شام، عراق، فلسطینی علاقوں اور کوسووو سے مہاجرین کی ایک بڑی تعدد جرمنی پہنچ چکی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ رواں برس کے اختتام تک قریب چار لاکھ نئے مہاجرین جرمنی میں پناہ کے لیے درخواستیں جمع کرائیں گے۔