1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’میرے چھوٹے سے خواب ہیں‘

8 اگست 2018

پاکستانی تارک وطن شیراز بھٹی نے یورپ پہنچنے کے لیے بحیرہ روم کا خوفناک سفر طے کرنے کی کوشش کی تھی، جس دوران اس کی والدہ اور چھوٹی بہن ہلاک ہو گئیں۔ لیبیا میں مقیم شیراز آج بھی یورپ جانے کے خواب دیکھ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/32nmU
Flüchtling Shiraz Bhatti
تصویر: Privat

گزشتہ چند سالوں سے لاکھوں مہاجرین لیبیا اور ترکی کے راستے بحیرہ روم کی تند و تیز لہروں سے لڑتے ہوئے چھوٹی کشتیوں میں یورپی ساحلوں تک پہنچنے کی کوششیش کر رہے ہیں، کچھ افراد کامیاب ہوجاتے ہیں اور بعض تارکین وطن اپنی قسمت بدلنے کا انتظار کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک پاکستانی تارک وطن شیراز بھٹی نے بحیرہ روم کے خطرناک سفر کو یاد کرتے ہوئے ’لیبیا میں مشکلات‘ اور ’بہتر مستقبل کی تلاش‘ کی کہانی ڈی ڈبلیو کو بتائی۔

ساڑھے چار سو مہاجر ریسکیو مگر جائیں کہاں؟

بحیرہ روم میں334 مہاجرین کو ڈوبنے سے بچا لیا گیا

’جھوٹے وعدے‘

سن 2015 میں شیراز بھٹی اور اس کے اہل خانہ نے یورپ پہنچنے کے لیے اپنی قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ لیبیا میں موجود انسانی اسمگلروں نے اُن سے وعدہ کیا کہ اُن کو ایک بڑے بحری جہاز میں محفوظ طریقے سے یورپ منتقل کیا جائے گا۔ لیکن، حقیقت اس کے برعکس تھی۔ شیراز بھٹی اپنی والدہ اور بہن کے ساتھ جب ساحل پر پہنچا تو دیکھا کہ ایک چھوٹی کشتی ان کے انتظار میں کھڑی تھی۔

Lybien: Die spanische NGO Proactiva Open Arms rettet Flüchtlinge
تصویر: Getty Images/AFP/P. Barrena

شیراز کےساتھ دیگر تارکین وطن بھی موجود تھے، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل تھیں۔ یہ تمام افراد اس چھوٹی سی کشتی میں سوار ہوگئے۔ سفر شروع ہوا اور  پہلے ہی گھنٹے میں کشتی ڈوبنے لگی۔ اسی دوران سمندر  پار کروانے والے لیبیا کے اسمگلر ایک دوسری کشتی میں بیٹھ کر فرار ہو گئے۔

شیراز بھٹی کی معصوم بہن، جو کہ تیر نہیں سکتی تھی بہت کوشش کرنے کے باوجود گہرے سمندر میں ڈوب گئی۔ بھٹی اور اس کی والدہ آٹھ گھنٹے تک لائف جیکٹ زیب تن کیے سمندر میں زندگی اور موت کے درمیان جنگ لڑتی رہے لیکن علالت کے باعث ان کی والدہ دم توڑ گئیں۔  بالآخر لیبیئن کوسٹ گارڈ نے چار سو سے زائد تارکین وطن سے بھری اس کشتی میں سے صرف ایک سو پچیس کو بچا لیا۔ بھٹی سمیت دیگر تارکین وطن کو ایک عارضی ریسکیو مرکز میں ایک ہفتہ تک رکھنے کے بعد طرابلس روانہ کردیا گیا۔

Mittelmeer Seenotrettung NGO Proactiva Open Arms
تصویر: Getty Images/AFP/P. Barrena

’میرے چھوٹے سے خواب ہیں‘

طرابلس میں شیراز اپنے چھوٹے بھائی کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اس کے اہل خانہ پاکستان لوٹ چکے ہیں، جہاں شیراز کے والد زیر علاج ہیں۔ شیراز بھٹی اب نہ تو پاکستان واپس جانا چاہتے ہیں اور نہ ہی انہیں لیبیا میں رہنے میں کوئی دلچسپی ہے۔ شیراز کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں پیسہ کمانا مشکل ہے۔ وہ یورپ جانا چاہتے ہیں۔‘ یورپ پہنچ کر شیراز اعلٰی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرے چھوٹے سے خواب ہیں اور میں تعلیم حاصل کر کے ایک اچھی نوکری کرتے ہوئےبہتر زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں‘۔

ع آ/ ع ا (انفو مائیگرینٹس)