میمو گیٹ اسکینڈل، سپریم کورٹ کی جمعرات تک دلائل مکمل کرنے کی ہدایت
28 دسمبر 2011بدھ کے روز اس مقدمے کی سماعت کے موقع پر امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے کہا ہے کہ ملکی فوجی اور سول قیادت میں تناؤ ہے اور ان کے مؤکل کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں نو رکنی لارجر بینچ کے روبرو دلائل میں عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ میمو کیس میں دائر درخواستیں ناقابل سماعت ہیں کیونکہ اس معاملے میں کسی کا بنیادی حق متاثر نہیں ہوا۔ عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ خفیہ مراسلے کی تحقیقات کے لیے درست فورم پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی ہے۔ عدالتی تحقیقات کے نتیجے میں بہت سی باتیں سامنے نہیں آ سکیں گی۔ اس پر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ تحقیقات کا فورم آپ کی مرضی کا نہیں بلکہ قانون کے مطابق ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ اپنا کام کر رہی ہوتی تو خفیہ مراسلے جیسے معاملے کو عدالت میں نہ لایا جاتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میمو سے متعلق حقائق کو چھپانے نہیں دیا جائے گا۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ عدالت اس بات کی تحقیقات کرائے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ نے امریکی شہری سے کیوں ملاقات کی اور میمو کے بارے میں وہ (ڈی جی) اپنی سرگرمیاں بتائیں۔
بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ وہ جمعرات کو اپنے دلائل مکمل کریں گی اور ان کا زور اسی بات پر ہو گا کہ سپریم کورٹ اس مقدمے کی سماعت نہ کرے۔ انہوں نے کہا، ’’قانون کے مطابق ہر شخص کا یہ حق ہے کہ اگر ایک عدالت سے فیصلہ ہوتا ہے تو وہ اس کے خلاف اوپر عدالت میں جاتا ہے چاہے وہ قتل کا کیس ہی کیوں نہ ہو اس کے مراحل ہوتے ہیں۔ لیکن اگر میرا فیصلہ اوپر سے ہوا تو میں اس پر کہیں نہیں جا سکتی۔‘‘
خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے یکم دسمبر کو مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف اور دیگر 8 افراد کی درخواستوں پر میمو کیس میں صدر، آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور وفاق پاکستان کو جواب داخل کرانے کے لیے کہا تھا۔ تاہم صدر نے اب تک اپنا جواب عدالت میں داخل نہیں کرایا۔ میمو کا یہ معاملہ فوجی اور سویلین حکومت کے درمیان کشیدگی کا سبب بنا ہوا ہے۔
تاہم گزشتہ 4 ہفتوں میں ابھی تک ان درخواستوں کے قابل یا ناقابل سماعت ہونے کا فیصلہ نہیں ہو پایا۔ اسی سبب اس مقدمے کے ایک اہم درخواست گزار اور وطن پارٹی کے سربراہ بیرسٹر ظفر اللہ کا کہنا ہے کہ معاملے کو طول دینے کے بجائے جلد نمٹانا چاہیے۔
انہوں نے کہا، ’’لوگوں کو کھانے پینے کے، بجلی، گیس، پٹرول کے بنیادی حقوق تو مل نہیں رہے۔ اس صورتحال میں سکیورٹی کی حالت بھی خراب ہو جاتی ہے۔ ان کو یہ حقوق مہیا کیے جائیں۔ آئین میں یہ لکھا ہے کہ لوگوں کی حفاظت آزادی کے لیے تمام چیزیں آرٹیکل 9 کے دائرے میں آتی ہیں۔ اگر لوگوں کا خیال نہیں رکھا جائے گا تو ملک کیسے چلے گا۔‘‘
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: حماد کیانی