میمو گیٹ تحقیقاتی کمیشن، طارق کھوسہ نے معذرت کر لی
3 دسمبر 2011سپریم کورٹ کے ذرائع کے مطابق طارق کھوسہ نے اپنے اس فیصلے کے بارے میں ہفتے کے روز رجسٹرار سپریم کورٹ کو آگاہ کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ پیر کو مسلم لیگ ن کی طرف سے دائر کی گئی مختلف درخواستوں کی سماعت کے بعد میمو گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے طارق کھوسہ پر مشتمل ایک رکنی تحقیقاتی کمیشن قائم کیا تھا۔عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ طارق کھوسہ سے ان کی مرضی معلوم کرنے کے بعد انہیں یہ ذمہ داری سونپی جائے۔
پولیس گروپ کے سابق آفیسر طارق کھوسہ کو تحقیقات کے لیے نامزد کیے جانے کے بعد سے حکمران پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی طرف سےشدید تنقید کا سامنا تھا۔ ایک قابل اور ایماندار افسر کی شہرت رکھنے والے طارق کھوسہ کو پیپلز پارٹی کے رہنما بابر اعوان نے یہ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنایا تھا کہ ان کے ایک بھائی صوبہ پنجاب کے چیف سیکرٹری اور دوسرے سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج ہیں اور حکومت مخالف جماعت مسلم لیگ ن سے ان کے قریبی تعلقات ہیں۔
طارق کھوسہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی FIA کے سربراہ کی حیثیت سے سٹیل مل کرپشن کےعلاوہ بھارتی شہر ممبئی میں ہونے والے دہشتگردانہ حملوں کی پاکستان میں تحقیقات سمیت کئی اہم مقدمات کی تفتیش کر چکے ہیں۔
سپریم کورٹ کے وکیل اطہر من اللہ نے طارق کھوسہ کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ انہوں نے میمو گیٹ کے اہم معاملے کی تحقیقات کو تنازعے سے بچانے کے لیے اچھا قدم اٹھایا ہے۔ اطہر من اللہ نے ان پر ہونے والی تنقید کو رد کرتے ہوئے کہا،’’یہ کہنا نامناسب ہے کہ کسی کا بھائی چونکہ بحیثیت جج تعینات ہے لہٰذا وہ تحقیقات نہیں کر سکتا اور یہ تاثر دینا کہ عدالت نے اپنا ذہن بنا لیا ہے یہ بھی انتہائی غلط ہے۔ چونکہ عدالت نے تو محض تحقیقات کا حکم دیا ہے اور تحقیقات کرانا تو بالخصوص ان لوگوں کے فائدے میں ہے جن پر یہ الزام لگ رہا ہے تو حکومت کو اسے ایک خوش آئند اقدام قرار دینا چاہیے۔‘‘
ادھر وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ انہوں نے پارلیمان کی قومی سلامتی کی کمیٹی کو بھی میمو کے معاملے کی تحقیقات سونپ رکھی ہیں اور اصل حقائق قوم کے سامنے لائے جائیں گے۔ تاہم وزیراعظم سمیت پیپلز پارٹی کی تمام قیادت نے سپریم کورٹ کی جانب سے کمیشن کے قیام کے فیصلے کو سنجیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا۔ معروف قانون دان اور مسلم لیگ ق کے سینیٹر ایس ایم ظفر نے سپریم کورٹ کے کمیشن کی تشکیل کے فیصلے کے مضمرات کے بارے میں کہا، ''غیر معمولی فیصلے کے غیر معمولی نتائج ہوں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہ فیصلہ جو کیا گیا ہے، کس سمت جا رہا ہے؟ معلوم یہ ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ معاملے کی تہہ تک اس وقت تک نہیں پہنچا جا سکتا، جب تک شہادتیں اکٹھی نہ کی جائیں۔ اختیارات انہوں نے دیے ہیں۔ اب ان اختیارات کو اچانک اور فوراً اس لیے دیا گیا ہے کہ وہ شواہد جنہیں جلد اکٹھا کیا جانا چاہیے، وہ ضائع نہ ہو جائیں یا ضائع نہ کر دیے جائیں۔‘‘
خیال رہے کہ گزشتہ اکتوبر میں پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے انکشاف کیا تھا کہ انہوں نے امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کہنے پر اس وقت امریکی فوج کے سربراہ ایڈمرل مائیک مولن کو ایک خفیہ مراسلہ پہنچایا تھا جس میں پاکستانی سویلین قیادت کے خلاف ممکنہ فوجی بغاوت کو روکنے کے لیے مدد طلب کی گئی تھی۔ اس کے بعد حسین حقانی کو پاکستان بلا کر استعفیٰ لے لیا گیا تھا جبکہ سپریم کورٹ نے ان کے ملک سے باہر جانے پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں