میننگ نے امریکا کو کتنا نقصان پہنچایا؟
5 اگست 2013وکی لیکس کو امریکی خفیہ دستاویز فراہم کرنے والے فوجی بیرڈلی میننگ پر فرد جرم عائد کی جا چکی ہے تاہم امکان ہے کہ آج پیر کے روز امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عہدیدار پیٹرک کینیڈی ایک فوجی عدالت میں پیش ہو کر یہ بتائیں گے کہ میننگ کے اس عمل سے امریکا اور اس کے اتحادیوں کے درمیان تعلقات کس حد تک متاثر ہوئے ہیں اور یہ کہ عالمی سطح پر انٹیلیجنس کے تبادلے پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
تیس جولائی کو جج کرنل ڈینس لِنڈ نے میننگ پر دستاویز لِیک کرنے سے متعلق انیس الزامات میں فرد جرم عائد کی تھی۔ امریکی تاریخ میں اعلیٰ خفیہ دستاویزات کا اس پیمانے پر افشا کیے جانے کی نظیر نہیں ملتی۔ خیال رہے کہ میننگ کو ’’دشمن‘‘ کو مدد فراہم کرنے کے حوالے سے قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا ہے۔ یہ ان پر عائد الزامات میں سب سے سنگین تھا۔ اس کے باوجود میننگ کو ایک سو چھتیس برس قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔
مارچ دو ہزار گیارہ میں کینیڈی نے امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی اور حکومتی امور کو بتایا تھا کہ وکی لیکس کے منظر عام پر آنے کے بعد کا ماحول ہم کو یہ بتاتا ہے کہ ٹیکنالوجی کسی مسئلے کے حل تک پہنچنے میں مددگار تو ہو سکتی ہے مگر یہ بہ ذات خود کوئی جواب نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا، ’’آسان الفاظ میں یہ کہنا چاہیے کہ ہمیں اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ ہم کن چیزوں کا تبادلہ کر رہے ہیں نہ کہ ہم کس طرح ان چیزوں کا تبادلہ کر رہے ہیں۔‘‘ کینیڈی کا کہنا تھا کہ امریکی عہدیداروں کہ کو انٹیلیجنس کو مخفی رکھنے کے لیے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
میننگ کے وکلاء اپنے مؤکل کے لیے نرم تر سزا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دستاویزات کے لِیک کیے جانے کا عمل کسی بری نیّت سے نہیں کیا گیا تھا۔
میننگ سن دو ہزار دس میں بغداد میں تعینات تھے جب ان کو حراست میں لیا گیا تھا۔ ان کو خفیہ امریکی دستاویز، بہ شمول اس وڈیو کے جس میں سن دو ہزار سات میں ایک امریکی فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ایک درجن کے قریب افراد کو گولیاں مار کر ہلاک کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔