1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

میونخ اولمپکس، اسرائیلی ٹیم پر حملہ: دوبارہ تفتیش کا اعلان

21 اپریل 2023

1972ء کے میونخ اولمپکس میں اسرائیلی وفد پر حملے میں کھلاڑیوں اور حملہ آوروں سمیت سترہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ جرمن ریاست اس حملے کے بعد اسرائیلی متاثرین کے لواحقین کے ساتھ کسی حتمی معاہدے پر پہنچنے کی کوشش میں رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4QPK3
Deutschland | Attentat München Olympia 1972
تصویر: dpa/picture alliance

جرمن حکومت نے نصف صدی سے بھی زائد عرصہ گزر جانے کے بعد میونخ اولمپکس میں اسرائیلی ٹیم پر حملے کی دوبارہ تفتیش کرانے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے جمعے کے روز  اپنے ایک بیان میں کہا کہ جرمن حکومت نے سن 1972ء میں میونخ اولمپک گیمز کے دوران اسرائیلی کھلاڑیوں اور قفد کے دیگر ارکان پر حملے کی نئے سرے سے چھان بین کے لیے ایک کمیشن قائم کر دیا ہے۔

Vorstellung der Polizeilichen Kriminalstatistik
وفاقی جرمن وزیر داخلہ نینسی فیزر نے جمعے کے روز تحقیقاتی کمیشن کے قیام کا اعلان کیاتصویر: picture alliance/dpa

انہوں نے کہا، ''بہت سالوں سے ان واقعات کو سمجھنے یا دوبارہ جانچنے اور ان کے بارے میں شفافیت یا ان کے لیے ذمہ داری قبول کرنے کی کمی تھی۔‘‘

یہ منصوبہ اس معاہدے کا حصہ ہے جو جرمنی نے گزشتہ سال متاثرین کے خاندانوں کے ساتھ طے کیا تھا، جس میں اٹھائیس ملین یورو کے معاوضے کی پیشکش بھی شامل ہے۔ یہ معاہدہ ستمبر سن 1972 میں میونخ میں گرمائی اولمپک کھیلوں کے دوران ایک المناک موڑ لینے والے واقعات کے ہمیشہ کے لیے خاتمے کی ایک کوشش تھا۔ یہ واقعات سوگواراسرائیلی خاندانوں اور جرمن حکومت کے درمیان پچاس سالہ طویل تنازعے کی وجہ بنے۔

سن 1972 میں کیا ہوا تھا؟

پانچ ستمبر سن انیس سو بہتر کو بلیک ستمبر نامی جنگجو گروپ سے  تعلق رکھنے والے فلسطینیوں نے جرمن صوبے باویریا کے دارالحکومت میں اسرائیلی اولمپک ٹیم کے کوارٹرز میں گھس کر حملہ کیا تھا۔ انہوں نے ویٹ لفٹر یوزیف رومانو اور ریسلنگ کوچ موشے وینبرگ کو گولی مار کر ہلاک  کر دیا اور نو دیگر اسرائیلیوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔

اغوا کاروں نے یرغمال بنائے گئے افراد کے بدلے اسرائیل اور مغربی جرمنی میں قید دو سو چونتیس قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ مغربی جرمن حکام کی جانب سے کیے گئے ایک مشکل ریسکیو آپریشن کے دوران تمام نو یرغمالی ہلاک ہو گئے گئے۔ اس آپریشن میں پانچ اغوا کار اور ایک جرمن پولیس افسر بھی مارے گئے۔

Deutschland | Hostessen der Olympischen Spiele München 1972
جرمن حکومت کی کوشش تھی کہ وہ میونخ اولمپک گیمز کے زریعے دنیا کو جرمنی کا مثبت امیج پیش کرے تصویر: imago sportfotodienst

دہشت گردی کے اس حملے نے ہولوکاسٹ کے صرف ستائیس سال بعد جرمنی اور اسرائیل کے درمیان ایک گہری دراڑ پیدا کر دی تھی۔ ہولوکاسٹ ميں نازی جرمنوں نے ساٹھ لاکھ سے زیادہ یہودیوں کو قتل کیا تھا۔ ميونخ کے اس واقعے نے اس دور کی مغربی جرمن ریاست کی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی کھیلوں کے ان مقابلوں کے انعقاد کے ذریعے اپنے ملک اور عوام کی مثبت تصویر پیش کرنے کی امید کو بھی چکنا چور کر دیا تھا۔

لواحقین کا طویل انتظار

متاثرین کے لواحقین کا طویل عرصے سے مطالبہ تھا کہ جرمن ریاست دہشت گردی کے اس واقعے سے نمٹنے میں ناکامی کی  ذمہ داری قبول کرے اور اس کے متاثرین کو مناسب معاوضہ ادا کرے۔ جرمنی نے گزشتہ برس اس دہشت گردانہ حملے میں مارے جانے والوں کے رشتہ داروں کے لیے اٹھائیس ملین یورو کی اضافی ادائیگی پر اتفاق کیا تھا۔

گزشتہ سال اس حملے کی 50 ویں برسی کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب میں جرمن صدر فرانک والٹر اشٹائن مائر نے متاثرین کے لواحقین سے معافی کی درخواست کی تھی۔ گزشتہ دہائی کے دوران ان واقعات کو یاد رکھنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ اس سلسلے میں میونخ کے اولمپک پارک میں ایک یادگار بھی قائم کی گئی۔

ش ر ⁄ ع س، م م (اے ایف پی، روئٹرز،ای پی ڈی)