میونخ اولمپکس کے دوران حملہ: ’سیاہ ستمبر‘ کے چالیس برس
3 ستمبر 2012اس حملے میں اولمپکس میں حصہ لینے والے 11 اسرائیلی کھلاڑی مارے گئے تھے۔ جو زندہ بچے تھے، وہ آج چالیس برس بعد بھی اس واقعے کو بھلا نہیں سکے۔
اسرائیل کے ریاستی علاقے میں شامل صحرائے نجف کے ایک چھوٹے سے قصبے عمر میں شاؤل لادانی کا گھر دیکھنے میں ایک عجائب گھر معلوم ہوتا ہے۔ الماریوں میں بہت سی ایسی ٹرافیاں اور کپ رکھے ہیں، جو لادانی نے ایک کھلاڑی کے طور پر اپنے طویل کیریئر میں جیتے تھے۔ شاؤل لادانی کے گھر میں کھلاڑی کے طور پر ان کے کیریئر کی جو یادیں جگہ جگہ نظر آتی ہیں، ان میں 1972 کے میونخ اولمپکس بھی شامل ہیں۔
لادانی بعد میں پی ایچ ڈی کر کے پروفیسر ڈاکٹر بھی بن گئے تھے مگر جب انہوں نے میونخ اولمپکس میں حصہ لیا تو ان کی عمر 36 برس تھی اور وہ اسرائیل کے اولمپک دستے میں شامل سب سے عمر رسیدہ کھلاڑی تھے۔
شاؤل لادانی کے لیے میونخ اولمپکس میں شرکت ان کی ان بین الاقوامی مقابلوں میں دوسری شرکت تھی۔ آج 76 برس کی عمر کے اس سابقہ ایتھلیٹ کو چار عشرے پہلے میونخ میں پیش آنے والے تمام واقعات اچھی طرح یاد ہیں، بالکل ایسے جیسے یہ ابھی کل کی بات ہو۔
اولمپک ولیج میں دہشت گردی
تین ستمبر 1972 کو لادانی نے ایک مقابلے میں حصہ لیا اور چار ستمبر تک اس کے ارد گرد کی دنیا بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔ چار ستمبر کی شام کو لادانی نے اپنے باقی ہم وطن کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر میونخ شہر کے اندرونی حصے میں ایک میوزیکل بھی دیکھا تھا۔
پھر پانچ ستمبر کو علی الصبح اسے اس کے ایک دوست نے یہ کہہ کر جگایا کہ عرب دہشت گردوں نے اولمپک ولیج میں لادانی کی رہائش گاہ کے ساتھ والی دو رہائش گاہوں میں 11 اسرائیلی کھلاڑیوں کو یرغمال بنا لیا تھا۔ شاؤل لادانی کہتے ہیں، ’میں بدحواسی میں جلدی سے دورازے کی طرف گیا، باہر دیکھا تو ساتھ والے فلیٹ میں چار پولیس اہلکار گہری رنگت والے ایک شخص کے ساتھ بات چیت کر رہے تھے۔ اس شخص نے ایک ہیٹ پہن رکھا تھا۔ پولیس والوں نے کہا کہ اسے ریڈ کراس کے اہلکاروں کو یرغمالیوں تک رسائی کی اجازت دینی چاہیے اور انسانیت پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس پر اس شخص نے کہا، ’یہودی بھی تو انسانیت پسند نہیں ہیں‘۔ اس شخص نے مجھے نہیں دیکھا تھا۔ میں نے جلدی سے پیچھے ہٹ کر دروازہ بند کر دیا تھا۔‘
موت سے فرار
شاؤل لادانی ہولوکاسٹ کے دوران ایک چھوٹے سے بچے کے طور پر نازیوں کے Bergen-Belsen نامی ایک اذیتی کیمپ میں بھی وقت گزار چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میونخ اولمپک ولیج میں وہ جس فلیٹ میں مقیم تھے، وہ نامعلوم اور ناقابل وضاحت وجوہات کی بناء پر دہشت گردوں کے حملے سے محفوظ رہا تھا۔ حملہ آوروں نے ساتھ والے فلیٹس میں اسرائیلی کھلاڑیوں کو ان کے ٹرینر سمیت یرغمالی بنایا تھا۔ جن دو یرغمالیوں نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی تھی، انہیں دہشت گردوں نے شروع میں ہی گولی مار دی تھی۔ لادانی اور ان کے ساتھ رہنے والے اسرائیلی کھلاڑی اپنے فلیٹ کے پچھلے دروازے سے نکل کر اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
ماضی کے واضح نقوش
شلومِیت نِیر طُور کو بھی کچھ نہیں بھولا۔ انہوں نے میونخ اولمپکس میں ایک 19 سالہ خاتون پیراک کے طور پر 100 اور 200 میٹر بریسٹ سٹروک مقابلوں میں حصہ لیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے کوئی انتہائی شاندار کارکردگی تو نہیں دکھائی تھی لیکن انہیں فخر تھا کہ انہوں نے ان مقابلوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کی تھی۔ Shlomit Nir-Toor اولمپک مقابلوں میں حصہ لینے کے فوری بعد واپس اسرائیل جانے کا ارادہ رکھتی تھیں جہاں ان کی اپنے منگیتر کے ساتھ شادی ہونا تھی۔
جس دن میونخ اولمپک ولیج پر حملہ ہوا، نِیر طُور بھی وہیں پر تھیں۔ عسکریت پسند فلسطینیوں کے مسلح حملے کے وقت وہ کھلاڑی خواتین کے لیے مختص ایک فلیٹ میں مقیم تھیں اور انہوں نے اگلے روز اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ کس طرح یرغمالیوں کو دو ہیلی کاپٹروں تک پہنچایا گیا تھا۔
بندھے ہاتھوں والے یرغمالی
شلومِیت کہتی ہیں، ’مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنے اسرائیلی کھلاڑی دوستوں کو آخری مرتبہ اس طرح دیکھا تھا کہ ان کی آنکھوں پر پٹیاں تھیں اور ان کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ ہماری حفاظت کے لیے ہمیں جرمن پولیس اہلکاروں نے ایک عمارت کی نویں منزل میں پہنچا دیا تھا۔ ہم نے کھڑکی میں سے دیکھا تھا کہ اولمپک ولیج کی گراؤنڈ پر دو ایسے ہیلی کاپٹر اترے، جن کے ذریعے دہشت گردوں اور ان کے زیر قبضہ یرغمالیوں کو Fürstenfeldbruck کے ہوائی اڈے تک پہنچایا جانا تھا تاکہ وہاں سے وہ قاہرہ کے لیے پرواز کر سکیں۔ یرغمالیوں اور دہشت گردوں کو دو بسوں کے ذریعے ہیلی کاپٹروں تک پہنچایا گیا تھا۔
پھر چند گھنٹوں بعد اسرائیلی وفد کے ارکان کو یہ المناک خبر ملی کہ فیورسٹن فَیلڈ برُوک کے ہوائی اڈے پر یرغمالیوں کو رہا کروانے کی ایک مسلح کوشش کے دوران تمام نو اسرائیلی یرغمالی اور ایک جرمن پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔ یوں فلسطینیوں کے اس دہشت گرد گروپ کے ہاتھوں، جسے وہ بلیک ستمبر کہتے تھے، کُل گیارہ اسرائیلی کھلاڑی مارے گئے۔
اسرائیل واپسی
شاؤل لادانی اور شلومِیت نِیر طُور اس حملے میں محفوظ رہے اور اولمپک ولیج میں ایک مختصر سی تعزیتی تقریب میں شرکت کے بعد سات ستمبر کو واپس اسرائیل لوٹ گئے۔ یہ دونوں کھلاڑی اسی طیارے میں واپس لوٹے تھے جس میں ان کے مارے جانے والے ساتھیوں کی تابوتوں میں بند لاشیں بھی تھیں۔
مقابلے جاری رہے
اس واقعے کے باوجود میونخ میں کھیلوں کے اولمپک مقابلے جاری رہے۔ تب انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی کے صدر برُونداج نے اعلان کیا تھا کہ مقابلوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اس وقت اسرائیل کی وزیر اعظم گولڈا مائر تھیں۔ ان کی حکومت نے مطالبہ کیا تھا کہ میونخ اولمپکس کو منسوخ کر دیا جائے۔ لیکن بین الاقوامی اولمپک کمیٹی نے فیصلہ کیا تھا کہ اس حملے کی سزا ان کھلاڑیوں کو نہیں ملنی چاہیے، جنہوں نے ان اولمپکس کے لیے سالہا سال تک تیاری کی تھی۔
B. Marx , mm / aa