میٹِس کا پاکستان سے ’ڈُو مور‘ کا مطالبہ
5 دسمبر 2017امریکی محکمہ دفاع کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہے کہ جیمز میٹِس نے پاکستان پر واضح کیا ہے کہ وہ افغان سرحد کے قریب پاکستانی حدود ميں موجود ان عسکریت پسندوں کے خلاف سخت کارروائیاں کرے، جو سرحد عبور کر کے افغانستان میں امریکی اور افغان فورسز پر حملے کرتے ہیں۔
پاکستان کی تعریف بھی اور اسے دھمکیاں بھی
میٹس پاکستان سے مزید تعاون کے لیے دباؤ ڈالیں گے
مذاکرات کی کامیابی تک شام اور عراق سے نہیں نکلیں گے، میٹس
امریکی حکام ایک طویل عرصے سے الزام عائد کرتے ہیں کہ پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے حقانی نیٹ ورک جیسے دہشت گرد گروپوں سے روابط ہیں اور پاکستانی سکیورٹی فورسز فقط ان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہیں، جو پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہوتے ہیں۔
پاکستان اور امریکا، دونوں کی جانب سے میٹس اور پاکستانی قیادت کے درمیان ملاقاتوں کے بعد جاری کردہ بیانات میں کہا گیا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد مل کر کام کرنے اور افغانستان میں امن کے قیام کے عمل میں اسلام آباد کے کلیدی کردار پر متفق ہیں۔
جیمز میٹِس سے ملاقات سے قبل میڈیا کے ساتھ ایک مختصر گفتگو میں پاکستانی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ان کا ملک دہشت گردی کے انسداد کے لیے تن دہائيوں سے اقدامات کر رہا ہے اور اس معاملے پر امریکا اور پاکستان کے مقاصد ایک سے ہیں۔
اسلام آباد میں جیمز میٹِس نے تاہم صحافیوں سے بات چیت نہیں کی۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا ہےکہ پاکستانی عسکری اور سویلین قیادت سے ملاقاتوں میں میٹِس نے زور دیا کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کو وسعت دے۔
ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار کے مطابق ان ملاقاتوں میں جیمز میٹِس نے واضح انداز سے امریکی موقف پاکستانی قیادت پر واضح کر دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ اسلام آباد کو کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ وہ دہشت گردی کے خلاف واقعی ٹھوس اقدامات کر رہا ہے۔
اس عہدیدار نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر کہا ہے کہ میٹِس نے پاکستان پر واضح کیا ہے کہ اسلام آباد حکومت اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر واپس لائے۔