نئی عراقی پارلیمنٹ حکومت سازی سب سے بڑا چیلنج
15 جون 2010تین سو پچیس رکنی ایوان کی ایک ذمہ داری تو یہ ہے کہ اسے کئی حل طلب معاملات پر قانون سازی کرنا ہے اور اس قانون سازی کے کامیاب عمل سے ہی نئی حکومت فرقہ واریت پر قابو پانے کی کوشش میں ہو گی۔ یہی قانون سازی عراق کی اقتصادی ترقی کی بھی ضامن بن سکتی ہے۔ اسی پارلیمنٹ کو سن 2011 میں امریکی فوج کے مکمل انخلا کے بعد کی صورت حال کو بھی مد نظر رکھنا ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ حالیہ دہشت گردانہ لہر سے عراقی سلامتی کے دعووں کی قلعی کھل گئی ہے۔
اسی پارلیمنٹ کو ایک نئی حکومت کی تشکیل دینا ہے کیونکہ نئی حکومت کی عدم موجودگی سے اندرون عراق دہشت گردی کو فروغ حاصل ہو رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نئی حکومت کی تشکیل میں پارلیمنٹ کے اندر رسہ کشی کا عمل ہفتوں پر محیط ہوسکتا ہے۔ اسی نئی حکومت کے وزیر اعظم کون ہوں گے، یہ بھی ابھی طے ہونا باقی ہے۔
حکومت سازی کی خواہش سارے سیاسی دھڑے رکھتے ہیں۔ نوری المالکی تیسرے بڑے اتحاد کے ساتھ کامیاب مذاکراتی عمل مکمل کر چکے ہیں۔ اس اتحاد کی نشستیں 163 کے ہدف سے چار کم ہیں۔ مالکی اور شیعہ اتحاد کا دھڑہ ابھی وزیر اعظم کے نام پر متفق نہیں ہوا ہے۔ دوسری جانب سات مارچ کے الیکشن میں سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے والے اتحاد کے لیڈر ایاد علاوی کا کہنا کہ اگر ان کے حکومت سازی کے حق کو محدود کردیا گیا تو عراق میں فرقہ وارانہ آگ دوبار پھیل سکتی ہے۔ اس طرح نئی پارلیمنٹ کو عراق کے اندر پھیلی فرقہ واریت کو ختم کرنے کے حوالے سے بھی مثبت پیش رفت کرنا ہو گی ۔ بعض مبصرین کے نزدیک یہ سب سے بڑا چیلنج ہے جس کا پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ نئی حکومت کو بھی سامنا کرنا ہوگا۔
نوری المالکی کی دوبارہ نامزدگی کو شیعہ اتحاد کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے۔ علاوی کا گروپ العراقیہ بھی تمام سنیوں اور شیعوں کا نمائندہ اتحاد نہیں ہے اور نہ ہی علاوی سارے سنیوں اور شیعوں کے متفقہ قائد ہیں۔ مالکی گروپ کا خیال ہے کہ اگر علاوی وزیر اعظم بننے کی ضد چھوڑ کر بڑے قومی اتحاد پر متفق ہو جاتے ہیں تو عراق میں حکومت سازی کو درپیش تمام مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔ مالکی کے اتحاد کے اس نظریے کی العراقیہ کی جانب سے مخالفت سامنے آئی ہے۔
پارلیمنٹ کے اجلاس سے دو روز قبل نوری المالکی اور ایاد علاوی کی ملاقات کو انتہائی اہم خیال کیا گیا ہے۔ فریقین کے مطابق یہ ملاقات مثبت اور خوشگوار ماحول میں ہوئی تھی۔ پارلیمنٹ کے اجلاس سے قبل بھی دونوں لیڈروں کے درمیان مصافحہ ہوا تھا۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: کشور مصطفیٰ