1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی کتاب: امریکی خارجہ پالیسی کا تنقیدی جائزہ

Ali Amjad5 اپریل 2013

ایرانی نژاد امریکی مصنف ولی رضا نصر کی رواں ماہ شائع ہونے والی کتاب "The Dispensable Nation" میں امریکی خارجہ پالیسی کا ایک پرمغز تنقیدی جائزہ پش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ خارجہ پالیسی پسپائی کے راستے پر گامزن ہے۔

https://p.dw.com/p/189Nk
تصویر: Getty Images

خارجہ سطح پر امریکا کی سفارتی و عسکری پالیسیوں کے ضمن میں اس کتاب کے اجراء کا وقت کئی حوالوں سے خاصا اہم ہے۔ شام میں جاری خانہ جنگی، افغانستان سے اگلے برس غیر ملکی فوجیوں کا انخلا اور ایران و شمالی کوریا کے متنازعہ جوہری پروگرام چند ایسے امور ہیں، جن سے امریکا کا براہ راست تعلق ہے۔ خبر رساں ادارے آئی پی ایس کے مطابق مستقبل قریب میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کے امکانات بھی نظر نہیں آتے۔

ولی رضا نصر نے امریکی خارجہ پالیسی کی موجودہ حالت پر سوال اٹھاتے ہوئے اسے’retreat‘ یا ’پسپائی‘ سے تعبیر کیا ہے۔ مصنف ولی رضا آج کل واشنگٹن کی جان ہوپکنز یونیورسٹی میں ایڈوانس انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ڈین ہیں۔ اس سے قبل انہیں امریکی سفارتکار رچرڈ ہالبروک کے مشیر کا رتبہ بھی حاصل رہا ہے، جو افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکا کے خصوصی مندوب رہے ہیں۔ خبر رساں ادارے آئی پی ایس کے مطابق ڈاکٹر نصر کا امریکی حکومت کے ساتھ یہ تجربہ مایوس کن اور انکشافات سے بھرپور رہا۔

Fazalur Rehman Richard Holbrooke
پاکستان اور افغانستان کے لیے سابق امریکی مندوب رچرڈ ہالبروک کی مولانا فضل الرحمان کے سات ملاقات کا ایک منظرتصویر: AP

ولی رضا کے تجزیے کے مطابق اوباما انتظامیہ خارجہ سطح پر عسکری پالیسیوں کو ضرورت سے زیادہ عرصے تک فوقیت دے کر سیاسی امکانات سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی، صدر اوباما نے خود بھی وعدے زیادہ کیے مگر عملدرآمد میں پیچھے رہے اور یوں کئی بین الاقوامی امور پر مضبوط گرفت نہیں رکھ سکے۔ مصنف کے مطابق کئی امور میں دفتر خارجہ اور بالخصوص سابق وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی کوششوں کو بھی ’وائٹ ہاؤس‘ نے اہمیت نہیں دی اور انہیں دبایا۔

انہوں نے اپنی کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ صدر اوباما کی پہلی مدت صدارت میں وائٹ ہاؤس نے خارجہ پالیسی پر مکمل اجارہ داری قائم رکھی اور اسے داخلی پالیسیوں کے تابع رکھا۔ خبر رساں ادارے آئی پی ایس کے مطابق یہی باتیں ہیں جن کی وجہ سے یہ کتاب اجراء سے قبل ہی خاصی مشہور ہورہی ہے۔ مصنف نے اتنا تک لکھ دیا ہے کہ اگر امریکی خارجہ پالیسی کی تیاری اور اس پر عملدرآمد میں بڑی تبدیلی نہیں کی گئی تو اس طاقتور ملک کی ساکھ کو خاصا نقصان پہنچ سکتا ہے اور دوسرے ممالک اس پر بھروسہ کرنا کم کردیں گے۔

مصنف کے بقول اگرچہ یہ بات وثوق کے ساتھ نہیں کہی جاسکتی کہ محض امریکا کے قائدانہ کردار سے عرب اسرائیل تنازعے کی حالت بدل جاتی مگر اس بات کے امکانات زیادہ تھے کہ اگر مصر اور دیگر عرب ممالک کے حوالے سے امریکا کی پالیسی مختلف ہوتی تو جمہوریت نواز تحریک عرب اسپرنگ یا ’عرب بہار‘ کا سفر زیادہ کٹھن نہیں ہوتا۔ شام میں فوری مداخلت خون خرابہ روک سکتی تھی اور افغانستان کے حوالے سے اگر رچرڈ ہالبروک ہی کی پالیسیوں کو دوام دیا جاتا تو طالبان دوبارہ قوی نہیں ہوتے اور خطے میں پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات بھی امریکا کے مفاد میں رہتے۔ مختصر یہ کہ مناسب دلائل سے بھرپور امریکی خارجہ پالیسی کا یہ تنقیدی جائزہ پڑھنے کے لیے ایک دلچسپ کتاب ہے۔

(sks/aba (IPS