’نئے سیاسی نقشے سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی‘
5 اگست 2020وزیر اعظم پاکستان نے منگل کے روز ملک کا ایک نیا 'سیاسی نقشہ‘ منظر عام پر لایا ہے جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔ اس نئے نقشے کی منظوری وفاقی کابینہ نے بھی دے دی ہے۔ پاکستان اس نئے نقشے کو اقوام متحدہ میں منظوری کے لیے پیش کرے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمراہ قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ نیا نقشہ متعارف کراتے ہوئے اس دن کو پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن قرار دیا۔ اس نقشے کو اسکولوں اور کالجوں میں بھی استکمال کیا جائے گا۔ وزیر اعظم نے اسے''پاکستان کا نیا قانونی نقشہ‘ قرار دیا ہے۔
اس نقشے کی تائید پاکستان کی اپوزیشن لیڈر شپ نے بھی کی ہے۔ یہ نقشہ پاکستان کی طرف سے ایک ایسے موقع پر پیش کیا گیا جب بُدھ 5 اگست کو بھارت میں مودی سرکار کی طرف سے ایک سال قبل جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کا متنازعہ اعلان سامنے آیا تھا۔
نئے نقشے کے خد و خال
پاکستان کے نئے نقشے میں کشمیر کو واضح طور پر ایک 'متنازعہ خطے‘ کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی کہا گیا ہے کہ اس کی منظوری یا اس کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرار داد کی روشنی میں ہی کیا جائے گا۔
نئے نقشے کو پیش کرتے ہوئے وزیر اعظم نے مزید کہا کہ اس نقشے کے ذریعے گزشتہ برس 5 اگست کو بھارت کی طرف سے جموں کشمیر سے متعلق جن غیر قانونی اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا ان سب کی نفی کی جاتی ہے۔‘‘ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا اس نئے نقشے کے بارے میں کہنا تھا، ''ماضی میں بھی کئی نئے انتظامی نقشے پیش کیے جاتے رہے ہیں لیکن پہلی بار کسی نقشے کی مدد سے کشمیری عوام کی خواہشات کی عکاسی ہو رہی ہے۔‘‘ شاہ محمود قریشی نے پانچ اگست کو پاکستان بھر میں منائے جانے والے 'یوم استحصال‘ کے موقع پر کہا کہ پاکستان کی طرف سے نئے نقشے کو پیش کر کے حکومت نے ' نئی دہلی حکومت کو واضح پیغام بھیج دیا ہے کہ اُس کی طرف سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے متعلق کیے جانے والے غیر قانونی فیصلوں کو مکمل طور پر رد کیا جا رہا ہے۔‘‘
پاکستان کی صحافتی برادری کا خیال
پاکستان میں اس فیصلے کو کس طرح دیکھا جا رہا ہے؟ اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے صحافی اور کالم نگار ملک رمضان اسراء نے کہا کہ پہلے بھی بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے حوالے سے کوئی موثر حکمت عملی نہیں بنائی گئی تھی لیکن موجودہ حکومت کے غیر دانشمندانہ رویے نے اس اہم مسئلہ کو ایک مذاق بنا دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا،''میری کچھ کشمیریوں سے بات ہوئی ہے جنہوں نے عمران خان کے موجودہ اقدام کو محض ایک ڈرامہ قرار دیا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک مذاق ہے۔ اب دیکھیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے ان شوشوں کے سبب ہی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کل ہی رولاکوٹ تتہ پانی سیکٹر میں بھارت کی طرف سے فائرنگ ہوئی ہے جس سے کوئی گیارہ لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ جس میں سات خواتین بھی شامل ہیں۔‘‘
صحافی اور کالم نگار ملک رمضان اسراء کا کہنا ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کے نقشے میں شامل کرنے سے کشمیر آزاد ہر گز نہیں ہو گا۔ ان کے بقول،'' صرف گانے بنانے اور شاہراوں کے نام بدلنے سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اگر موجودہ حکومت واقعی اس معاملہ میں سنجیدہ ہے تو اس مقصد کے لیےعالمی عدالت سمیت عالمی فورمز پر اپنا مقدمہ مضبوط بنائے جس سے کوئی حقیقی فائدہ ہو۔‘‘ ملک اسراء کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کرنے کا حق صرف کشمیریوں کو ہے کہ آیا وہ پاکستان میں شامل ہوتے ہیں یا اپنی ریاست چاہتے ہیں؟
اپنے جیسے دیگر صحافیوں کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے ملک رمضان اسراء نے کہا،''سب سے بڑی منافقت یہ ہے کہ پاکستان میں بھارت کے ظلم وستم کے خلاف تو باتیں کی جاتی ہیں جو کہ اچھی بات ہے مگر ہم اپنے ملک میں قبائلیوں، بلوچوں اور اقلیتی برادریوں کے معاملے میں اندھے بہرے بن جاتے ہیں۔ جس ملک کی حکومت اپنی ریاست میں قتل و غارت پر خاموش ہو کیا اس کو حق ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق کی بات کرے۔‘‘
پاکستان کا نیا نقشہ اور کشمیری قوم پرستوں کا رد عمل
کشمیری قوم پرست پاکستان کے اس اقدام پر چراغ پا ہیں۔ معروف کشمیری راہنما اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کام کرنے والے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے ترجمان رفیق ڈار نے اس مسئلے پر اپنی جماعت کا نقطہ نظر دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اسلام آباد کا یہ اقدام اقوام متحدہ کی قرار داد کے خلاف ہے جس کے مطابق کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ یہ اسی طرح اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے جس طرح بھارت نے انیس سو ترپن میں نیم خودمختاری ختم کر کے شیخ عبداللہ کو گرفتار کیا تھا اور پھر گزشتہ برس 5 اگست کو نئی دہلی نے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے کے بعد پاکستان نے کشمیر کے مسئلے پر اپنی اخلاقی برتری کو کھو دیا ہے۔ "ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان نے بھی وہی کیا ہے جو بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ کیا۔ لیکن ان مصنوعی اقدامات سے کشمیریوں کی خودمختاری کی جدوجہد نہیں رکے گی اور وہ اپنی جدوجہد آزادی کو جاری رکھیں گے، جس کا مقصد پاکستان یا بھارت سے الحاق نہیں بلکہ خودمختار کشمیر ہے۔"
معروف کشمیری دانشور اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں کام کرنے والی سیاسی جماعت جموں کشمیر عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صدر پروفیسر خلیق احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان کے اس فیصلے سے خطے میں کشیدگی بڑھے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " اس کشیدگی کا سب سے زیادہ نقصان کشمیریوں کو اور خطے کی عوام کو ہوگا کیونکہ جنگ کی صورت میں سب سے زیادہ ہم مارے جائیں گے۔ اس فیصلے سے پاکستان نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اسے کشمیریوں کی زمین چاہیے اور یہ کہ اسے کشمیریوں سے کوئی دلچسپی نہیں ورنہ وہ اس مسئلے کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر کو اس طرح نظر انداز نہیں کرتا۔"
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ فیصلہ اقوام متحدہ کی قرار داد کی صریح خلاف ورزی ہے۔ " پاکستان کے حامی اس فیصلے کو شاید اچھا سمجھتے ہوں لیکن خود مختاری کے حامی اس فیصلے کو انتہائی منفی سمجھتے ہیں اور وہ اس کی بھرپور مذمت بھی کریں گے اور اس کے خلاف مزاحمت بھی۔"
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے کپواڑہ سے تعلق رکھنے والے کشمیری قوم پرست تجزیہ نگار طاہر مجید لون کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کے بعد کشمیری قوم پاکستان کے اخلاص کو شک کی نظر سے دیکھے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "اس فیصلے کے بعد کشمیر کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر یعنی کشمیری عوام مسئلے سے باہر ہوگئے ہیں اور یہ مسئلہ اب بھارت اور پاکستان کے درمیان رہ گیا ہے۔ اس سے پاکستان کے عزائم بھی سامنے آگئے ہیں۔ اس فیصلے کے بعد پاکستان آزاد کشمیر کو ہڑپ کر جائے گا اور عملی طور پر اسلام آباد وہی کرے گا، جو نئی دہلی نے کیا ہے۔"
کشور مصطفیٰ، عبدالستار/ ع ت