نئے مسائل کے لیے نئی حکمت عملی
13 اکتوبر 2015اندازوں کے مطابق ساٹھ ملین افراد غربت اور جنگوں کی وجہ سے در بدر ہیں۔ اس صورتحال نے اس موضوع کو بین الاقوامی اجلاسوں کے ایجنڈے میں شامل کر لیا گیا ہے۔ عالمی بینک کے سربراہ جم یونگ کم نے کہا کہ دنیا کو اس وقت دوسری عالمی جنگ کے بعد بے گھر ہونے والے افراد کے حوالے سے بڑے بحران کا سامنا ہے۔ لاطینی امریکی ملک پیرو کے دارالحکومت لیما میں عالمی مالیاتی فنڈ کے سالانہ اجلاس کے موقع پر اعلی حکومتی اہلکاروں نے مہاجرین کے موجودہ بحران پر بات کی۔ لبنانی وزارت مالیات کے ڈائریکٹر جنرل عالین بیفانی نے کہا ’’ ہماری آبادی چار ملین سے کچھ زیادہ ہے اور ہمارے ہاں تقریباً سترہ لاکھ مہاجرین ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ اگر میکسیکو کے تمام شہری امریکا میں سکونت اختیار کر لیں۔‘‘
تاہم اب عالمی بینک نے اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر اپنے ابتدائی منصوبوں میں ایسے طریقے اپنانے کا فیصلہ کیا ہے، جن کو استعمال کرتے ہوئے مہاجرین کی صورتحال کو بہتر کرنے کے لیے مزید رقوم اکھٹی کی جا سکیں گی۔ ترقیاتی پالیسی کے جرمن ادارے کے بینجمن شاراون کہتے ہیں کہ اگر صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تو آخر میں اقتصادی شعبے کی بہتری کے لیے مختص رقوم کو مہاجرین کی فلاح و بہبود پر خرچ کرنا پڑ جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ لیما اجلاس میں ہونے والے فیصلے اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ مہاجرین کے بحران کو عالمی سطح پر دیکھا اور قبول کیا جائے۔
اردن، لبنان، ترکی اور عراق جیسے ممالک اقوام متحدہ کی امداد پر بھروسہ کیےہوئے تھے تاہم ستمبر میں مہاجرین کی فلاح و بہبود کے ادارے ’ یو این ایچ سی آر‘ نے بیان دیا کہ متعدد ممالک میں پناہ گزینوں کو سہولیات مہیا کرنے کے لیے ادا کی جانے والی رقوم کافی نہیں پڑ رہیں۔ اسی عالمی ادارہ خوراک نے بھی وسائل کی کمی کی شکایت کرتے ہوئے اس ملک میں موجود تقریباً سوا تین لاکھ مہاجرین کو دی جانے والی اشیاء میں کمی کا اعلان کیا تھا۔ اس تناظر میں بیفانی نے کہا ’’جب مہاجرین کو ایک جگہ مناسب سہولیات نہیں مل پاتیں تو وہ کسی دوسری جگہ چلے جاتے ہیں‘‘۔