ناؤرو کے مہاجرین کی امیدیں پھر ڈوب گئیں
17 جولائی 2017آسٹریلیا اور امریکا کے درمیان طے پانے والے معاہدہ کے تحت پاپوا نیو گنی کے ناؤرو اور مانوس جزائر پر واقع آسٹریلوی مہاجر بستیوں میں موجود تارکین وطن کو امریکا لے جایا جانا ہے۔ اس سلسلے میں امریکی حکام کی ٹیم ناؤرو پہنچی تھی تو یہ امید ہو چلی تھی کہ یہ تارکین وطن بے یقینی کی کیفیت سے باہر نکلیں گے اور اپنی امریکا منتقلی کی تیاری شروع کریں گے، مگر امریکی ٹیم اچانک ہی ناؤرو جزیرے سے چلی گئی۔
مہاجرین کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ کے مطابق ان تارکین وطن کو اب یہ خدشات لاحق ہیں کہ شاید وہ یہیں پھنسے رہیں گے اور ان کی آبادکاری کا منصوبہ کبھی تکمیل نہیں پائے گا۔
کینبرا حکومت غیرقانونی طور پر ملک میں داخلے کی کوشش کرنے والوں کو سمندر ہی میں پکڑ کر مانوس یا ناؤرو جزائر منتقل کر دیتی ہے، تاہم وہاں تارکین وطن کی حالت دگرگوں ہے۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور حکومت میں واشنگٹن انتظامیہ اور آسٹریلیا کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا، جس میں امریکا نے ان دونوں جزائر پر موجود تارکین وطن کو اپنے ہاں بسانے پر اتفاق کیا تھا۔ تاہم صدر ٹرمپ نے برسراقتدار آنے کے بعد اس ڈیل کو ’احمقانہ‘ قرار دیا تھا، جس کے بعد اس منصوبے سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے۔ بعد میں تاہم ٹرمپ نے اس منصوبے پر عمل درآمد کی حامی بھر لی تھی۔
امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی کے محمکے کے حکام ناؤرو جزیرے پر موجود تارکین وطن کی جانچ پڑتال میں مصروف تھے، تاہم وہ اچانک ہی اپنا کام روک کر واپس چلے گئے۔ ریفیوجی ایکشن کوالیشن کے ترجمان ایان رنٹول کے مطابق امریکا میں سالانہ بنیادوں پر صرف پچاس ہزار مہاجرین کو قبول کرنے کے منصوبے کی منظوری کے چند ہی روز بعد ناؤرو سے ان امریکی حکام کے چلے جانے سے بہت سے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔
رنٹول کے مطابق ان امریکی حکام نے جاتے ہوئے تارکین وطن کو یہ اشارہ تک نہیں دیا کہ وہ دوبارہ لوٹیں گے۔ واضح رہے کہ ناؤرو میں قریب دو سو مہاجرین کو امریکا منتقل کرنے سے قبل انٹرویو کیا گیا ہے اور ان کا طبی معائنہ بھی ہو چکا ہے جب کہ دیگر 70 ابھی اس عمل سے گزر رہے تھے۔
یہ بات اہم ہے کہ ناؤرو اور مانوس جزائر پر موجود تارکین وطن کی مجموعی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے، جن میں سے 370 ناؤرو پر جب کہ آٹھ سو سے زائد مانوس میں مقیم ہیں۔