نائجیریا میں پرتشدد کارروائیاں، سو سے زائد افراد ہلاک
28 جولائی 2009ان جھڑپوں میں ہلاکتوں کے حوالے سےچند عینی شاہدین نے ہلاک شدگان کی تعداد ڈیڑھ سو تک بتائی ہے، تاہم سرکاری اعدادوشمار میں صرف 55 افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔
دو روز سے جاری ان خونریز جھڑپوں پر قابو پانے کے لئے نائجیریا میں حکومت نے منگل کے روز متاثرہ وفاقی ریاستوں میں کرفیو نافذ کر دیا۔ نائجیریا کے صدر عمرو موسیٰ یار ادوا نے خونریزی سے متاثرہ شہروں کی سڑکوں پر سیکیورٹی اہلکار متعین کر دئے ہیں، جنہیں ہر حال میں مقامی مسلمانوں کے بوکوحرم نامی عسکریت پسند گروہ کے حملوں کو ناکام بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔
نائجیریا سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق شمالی شہر باؤچی میں پرتشدد حملوں کا آغاز اتوار کے روز ہوا تھا اور یہ خونریزی پیر کے دن تک تین دیگر صوبوں میں بھی پھیل چکی تھی۔
باؤچی کے مقامی باشندوں کے مطابق اتوار کی صبح ’’نائجیریا کے طالبان‘‘ کہلانے والے بوکوحرم نامی عسکریت پسند تنظیم کے مسلح ارکان نے پولیس اہلکاروں کے زیر استعمال عمارتوں پر حملے شروع کردئے تھے۔ بعد ازاں پولیس نے وہاں کارروائی کی جس میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے۔
باؤچی میں ہلاکت خیز واقعات کے بعد جوتین دوسرے صوبے بھی پر تشدد واقعات کی لپیٹ میں آ گئے، اُن میں سے بورنو میں بہت سی ہلاکتیں علاقائی دارالحکومت مائدُو گُوری میں دیکھنے میں آئیں۔ ایسا اس شہر میں بیسیوں ہلاکتوں کے بعد ہوا کہ ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ سو سے زائد انسانوں کی ہلاکت کا ذکر کرنے لگے، جبکہ عینی شاہدین کے مطابق نائجیریا میں ان جملہ حملوں میں اب تک ڈیڑھ سو سے زائد انسان مارے جا چکے ہیں۔
ایک مقامی صحافی کے مطابق سے 100 سے زائد لاشیں صرف برونو میں ایک پولیس ہیڈکوارٹر کی عمارت میں دیکھی گئیں۔ پولیس اور عسکریت پسندوں کے درمیان لڑائی اگرچہ پیر کی رات سے بظاہر تھم چکی ہے، تاہم سرکاری اہلکار اب ہلاکشدگان کی لاشوں کو مختلف علاقوں سے جمع کرکے تھانوں اور ہسپتالوں میں پہنچانے میں مصروف ہیں۔
اسی دوران نائجیریا کی پولیس نے بوکوحرم کے 200 کے قریب ارکان کو گرفتار کر لینے کا دعوی کیا ہے۔ ملکی پولیس کے سربراہ اوگبونا اونووو کا کہنا ہے : ’’بوکو حرم ایک پر تعصب تنظیم ہے جو حکومت مخالف ہونے کے ساتھ عوام دشمن بھی ہے۔کوشش کی جارہی ہے کہ اس تنظیم کے رہنماؤں کی شناخت کر کے انہیں گرفتار کیا جائے اور ان کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا جائے۔‘‘
حالیہ پر تشدد واقعات میں بوکو حرم کے عسکریت پسندوں نے قدرے ناقابل فہم انداز میں شریعت کے نفاذ کا ذکر کرتے ہوئے پولیس چوکیوں اور جیلوں پر حملے کرنے کے ساتھ ساتھ کئی گرجا گھروں کو بھی نذر آتش کردیا تھا۔ کہا جارہا ہے کہ یہ تنظیم مغربی طرز تعلیم کے بھی سخت خلاف ہے۔
بوکو حرم نامی تنظیم پہلی مرتبہ سال2004ء میں منظر عام پر آئی تھی۔ 2005 کے اوائل میں دئے گئے اپنے ایک انٹرویو میں اس گروپ کے ایک رہنما نے کہا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی مسلح جدوجہد کرتے ہوئے نائجیریا میں افغان طالبان کی تقلید میں ایک اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں جو، بقول اس تنظیم کے، ’’معاشرے کو کفر اور غیر اخلاقی رویوں‘‘ سے پاک کرسکے۔
رپورٹ : میراجمال
ادارت : مقبول ملک