نابینا فوجی ’بیناؤں کے لیے مثال‘
26 اپریل 2015قبائلی علاقے تیراہ سے تعلق رکھنے والے چالیس سالہ نیاز بہادر فرنٹیئر کور (FC) کے سابقہ اہلکار ہیں۔ وہ 19 جولائی2001 کو بلوچستان کے علاقے کاہان میں ڈیوٹی کے دوران ایک دھماکے میں شدید زخمی ہو گئے تھے۔ اس حادثے نے نیاز بہادر سے بینائی چھین لی اور ٹانگوں کے ضائع ہونے کی وجہ سے وہ چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہو گئے۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے نیاز بہادر کا کہنا تھا کہ اس حادثے کے بعد ان کی زندگی کے کھٹن ترین دن شروع ہو گئے تھے، بنیادی علاج کے بعد نیاز بہادر کو اپنے محکمے سے ریٹائرمنٹ ملی اور وہ گھر تک ہی محدود ہو گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا موقع تھا کہ وہ اپنی زندگی سے بھی اکتا گئے تھے۔’’یہ سوچ کر مجھ پرعجیب سی کفیت طاری ہوجاتی کہ جو لوگ پیدائشی معذور ہیں، وہ کس طرح گزربسر کر رہے ہیں، بس اس دن سے میں نے تمام معذوروں کی مدد کرنے کا ارادہ کر لیا۔‘‘
نیاز بہادر کہتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں معذورافراد کے ساتھ لوگوں کا رویہ مناسب نہیں ہے۔ اس بات کا مشاہدہ وہ خود بھی بہت قریب سے کر چکے ہیں۔’’ نظر انداز کرنے کے حد تک تو ٹھیک ہے لیکن جب لوگ مذاق اڑانا شروع کردیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔‘‘
چودہ سال تک مسائل کا مقابلہ کرنے بعد نیاز بہادر نے تمام تر تکالیف کو بھلا کر معذور افراد کی فلاح وبہبود کے لیے ایک ادارہ قائم کرنے کی ٹھانی اور اس ادارے کی بنیاد انہوں نے اپنی پنشن کے ڈیڑھ لاکھ روپے سے رکھ لی۔ نیاز تنظیم معذوران (Niaz Disable Organization) کے نام سے 2012ء میں قائم ہونے والے اس ادارے کا بنیادی مقصد قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے پیدائشی یا حادثاتی طور پر معذور ہونے والے افراد کی مدد کرنا ہے۔
نیاز بہادر کے قائم کردہ فلاحی ادارے میں بطور پروگرام آفیسر کام کرنے والے سید نذیر کہتے ہیں کہ یہ ادارہ اپنی نوعیت کا واحد ادارہ ہے، جس نے خیبر ایجنسی میں کم ہی عرصے میں مختلف مواقع پر معذور افرادکی فلاح وبہبود کے لیے آگاہی مہم چلائیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہیں ان کا اس ادراے کی کارکردگی کے بارے کہنا تھا، ’’ملک بھر میں معذور افراد کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ سرٹیفیکیٹ کے حصول کا ہوتا ہے۔ ایک تو عام طور پر اس کو بنانے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی اور دوسرا یہ کہ اس کا طریقہ کار بہت پیچیدہ ہے۔ معذوری کا یہ سرٹیفیکیٹ نہ ہونے کی وجہ سے اکثر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لیکن اب ہمارے ادارے کی بدولت معذور افراد آسانی کے ساتھ معذوری کا یہ سرٹیفیکیٹ حاصل کرسکتے ہیں۔‘‘
سید نذیر کہتے ہیں کہ اس چھوٹی سی تنظیم نے اپنے محدود وسائل کے باوجود خیبر ایجنسی سے 1745معذور افراد کو رجسٹر کیا ہے، جن میں وقت کے ساتھ ساتھ ویل چیئر اور ضرورت کی دوسری اشیاء تقسیم کی جاتی ہے۔
معذور بائیس سالہ اعتبار گل کو حال ہی میں نیاز کے قائم کردہ ادارے کی طرف سے ویل چیئر دی گئی ہے, جس کی وجہ سے وہ اس ادارے کا بہت شکر گزار ہے اور نیاز بہادر کی کاوشوں کی تعریف سے ساتھ ساتھ ہر گھڑی اس کا ساتھ دینے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔
تنظیم کے اخراجات کے بارے میں بات کرتے ہوئے نیاز بہادرکا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ مقامی عوام کی جانب سے دیے جانے والے چندے کی بدولت چل رہا ہے اور لوگ ذاتی طور پر حیثیت کے مطابق مدد کرتے ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ابھی تک حکومت یا پھر کسی غیر سرکاری ادارے کی طرف سے ان کی کوئی مدد نہیں کی گئی۔
نیاز بہادر ماضی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ عملی اقدامات پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے بقول وہ ہرگز جھوٹی تسلیوں اور وعدوں سے کام نہیں لیتے۔ معذور ہونے کے بعد مختلف اداروں نے ان کے ساتھ بے شمار وعدے کیے تھے کہ جس میں ان کی اکلوتی تیرہ سالہ بچی کی تعلیم کے علاوہ ان کے لیے مالی امداد کے وعدے بھی شامل تھے لیکن کسی بھی ادارے نے کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔’’میری یہ کوشش ہے کہ کوئی بھی معذور کبھی بھی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے، وہ خود کو اس قابل بنائیں کہ لوگ ان پر انحصار کریں ناکہ وہ لوگوں پر۔‘‘
پرعزم نیاز بہادر کی یہ خواہش ہے کہ ان کے قائم کردہ ادارے میں خصوصی افراد کو تعلیم اور صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ فنی تعلیم بھی مہیا کی جائے، جس کے لیے وہ اور اس کے ادارے کا عملہ تگ ودو کر رہا ہے اور ان کو امید ہے کہ شدید مالی بحران کے باوجود وہ اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔