’ناراضی ختم‘، افغان صدر اشرف غنی پاکستان پہنچ گئے
27 جون 2019افغان صدر اشرف غنی کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی اسلام آباد پہنچا ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس وفد میں افغان وزراء، مشیران، سینئر حکومتی اہلکار اور تاجر بھی شامل ہیں۔
افغان صدر کے سن دو ہزار چودہ میں اقتدار میں آنے کے بعد سے یہ اُن کا پاکستان کا تیسرا دورہ ہے۔ پہلے دو دورے انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد کچھ ہی عرصے کے اندر اندر کیے تھے لیکن بعد ازاں وہ اسلام آباد حکومت سے 'ناراض‘ ہو گئے تھے۔ ان کا پاکستان پر الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ افغانستان میں بم دھماکے کرنے والے افغان طالبان کو پاکستان کی طرف سے پشت پناہی حاصل ہے۔
اشرف غنی کے پاکستان مخالف بیانیے کی وجہ سے ہی آج نور خان ایئر بیس پر افغان صدر کا استقبال کرنے کے لیے نہ تو پاکستانی وزیر اعظم وہاں گئے اور نہ ہی ملکی صدر۔ اشرف غنی کا استقبال وزیر اعظم کے مشیر عبدالرازق داؤد نے کیا۔ اشرف غنی کے پاکستان کے پہلے دو دوروں کے دوران صورتحال اس کے بالکل برعکس تھی۔ افغان حکومت متعدد مرتبہ پاکستان سے یہ اپیل کر چکی ہے کہ وہ طالبان اور کابل حکومت کے مابین براہ راست امن مذاکرات میں اپنا کردار ادا کرے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق اشرف غنی اپنے پاکستانی ہم منصب ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان سے ملاقاتیں کریں گے۔ ان ملاقاتوں میں 'دوطرفہ تعاون کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ سیاست، تجارت، اقتصادیات، امن اور علاقائی سلامتی کے موضوعات کو بھی زیربحث لایا جائے گا‘۔
افغان صدر یہ دورہ ایک ایسے وقت پر کر رہے ہیں، جب آئندہ ہفتے کے روز طالبان اور امریکا کے مابین امن مذاکرات کا ایک نیا دور شروع ہونے والا ہے۔ طالبان اور امریکی حکام گزشتہ موسم گرما سے ایسی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ افغانستان میں جنگ کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ طالبان کے نمائندے اس حوالے سے حال ہی میں روس اور چین کے دورے بھی کر چکے ہیں۔
افغان صدر آج جمعرات کو ہی لاہور روانہ ہو جائیں گے، جہاں انہیں ایک بزنس فورم میں شرکت کرنا ہے۔ اس فورم میں دونوں ممالک کی کاروباری شخصیات حصہ لے رہی ہیں۔ افغان صدر کل نماز جمعہ لاہور کی مشہور بادشاہی مسجد میں ادا کریں گے اور جمعے کی شام لاہور ہی سے واپس افغانستان روانہ ہو جائیں گے۔
پاکستانی حکام کے مطابق انہیں توقع ہے کہ اشرف غنی کے ساڑھے تین سال بعد کیے جانے والے اس دورے کے دوران 'اہم امور‘ پر کھل کر بات چیت کی جائے گی۔
ا ا / م م ( ڈی پی اے، اے ایف پی)