ناروے یوتھ کیمپ حملے میں زندہ بچنے والے درجنوں افراد انتخابی امیدوار
10 جولائی 2013یہ حملہ سن 2011ء میں ناروے کے دارالحکومت اوسلو کے نواح میں لیبر پارٹی کہلانے والی سیاسی جماعت کے ایک یوتھ کیمپ کے شرکاء پر کیا گیا تھا۔ شدید عوامی غم و غصے کا باعث بننے والا یہ حملہ دائیں بازو کی سوچ کے حامل ناروے ہی کے ایک شہری آندرس بیہرنگ بریوک نے کیا تھا۔ اس خونریز واقعے میں بیسیوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ان دنوں اوسلو میں جولائی کی دھوپ میں ویگارڈ گروئسلی وینیس لینڈ Vegard Groeslie Wennesland
نامی ایک 29 سالہ نوجوان عام شہریوں کو گلاب کے پھول پیش کرتا اور معمول کی شاپنگ کرتے شہریوں سے سیاست پر بات چیت کرتا نظر آتا ہے۔ وہ ملکی لیبر پارٹی کے اس یوتھ کیمپ میں شامل تھا، جس پر یوٹویا کے جزیرے پر حملہ کیا گیا تھا۔
وینیس لینڈ کے علاوہ اس حملے میں یوتھ کیمپ کے بہت سے دیگر شرکاء بھی زندہ بچ گئے تھے۔ ان نوجوانوں میں سے اب ستائیس نوجوان سیاستدانوں کے طور پر ستمبر میں ہونے والے اگلے پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ان انتخابی امیدواروں میں وینیس لینڈ بھی شامل ہے۔
دو سال قبل جب آندرس بریوک نے لیبر پارٹی کے یوتھ کیمپ پر خود کار ہتھیاروں سے اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے 69 افراد کو ہلاک کر دیا تھا، تو وینیس لینڈ اور اس کے کئی دیگر ساتھیوں نے خود کو لکڑی کے ایک کیبن میں بند کر کے یا بستر کے نیچے چھپ کر اپنی جانیں بچائی تھیں۔
اب وینیس لینڈ اپنی عوامی رابطہ مہم کے دوران ناروے کے ووٹروں سے یہ کہتا دکھائی دیتا ہے، ’کسی نے مجھے اس وجہ سے قتل کرنے کی کوشش کی کہ میں کن باتوں پر یقین رکھتا ہوں۔ میری جدوجہد اسی کوشش کے خلاف مزاحمت ہے‘۔
وینیس لینڈ کا کہنا ہے، عام طور پر سمجھا یہ جاتا ہے کہ ہم ہر حال میں آزادانہ طور پر سیاست کر سکتے ہیں۔ ایسا سمجھنا غلط ہے۔ ہمیں اس کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہنا ہو گی‘۔
ناروے میں ستمبر میں ہونے والے عام الیکشن دو سال پہلے کے اس حملے کے بعد ملک میں ہونے والے پہلے پارلیمانی انتخابات ہیں۔ لیکن ناروے میں نوجوانوں کو آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کے لیے جتنی بڑی تعداد میں ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں، وہ کسی کے لیے حیرانی کا سبب نہیں ہونے چاہیئں۔ شمالی یورپ کے دوسرے ملکوں کی طرح ناروے میں بھی یہ دیرینہ روایت پائی جاتی ہے کہ وہاں نوجوانوں کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں سیاست میں آگے لانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
ناروے کے موجودہ وزیر اعظم ژینس اسٹولٹن برگ صرف 32 سال کی عمر میں ملکی پارلیمان کے رکن منتخب کر لیے گئے تھے۔ وزیر اعظم کے طور پر ان کی ممکنہ جانشین اَیرنا سول برگ ہو سکتی ہیں۔ ان کا تعلق قدامت پسندوں کی پارٹی سے ہے اور وہ صرف اٹھائیس سال کی عمر میں قومی پارلیمان کی رکن بن گئی تھیں۔
لیبر پارٹی نے یوٹویا کے جزیرے پر حملے میں زندہ بچ جانے والے جن ستائیس نوجوانوں کو انتخابی ٹکٹ جاری کیے ہیں، ان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ سب کے سب اپنے نظریات کے دفاع کے لیے جدوجہد کے قائل ہیں۔
ناروے میں ایسے سیاستدانوں کو ‘بائیس جولائی کے واقعات والی نسل‘ کے سیاستدان قرار دیا جاتا ہے۔ اوسلو کی پارلیمان میں لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والی ایک رکن Gunn Karin Gjul کہتی ہیں، ‘بائیس جولائی والی نسل کے افراد لیبر پارٹی میں ایک بڑی منفرد نسل سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن ہیں۔ ان کے نظریات اتنے امتحانوں سے گزرے ہیں جتنے کہ ناروے میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک کسی بھی نسل کے سیاسی نظریات نہیں گزرے‘۔