نازی اذیتی کیمپ آؤشوِٹس کے ’منشی‘ کو چار سال قید کی سزا
15 جولائی 2015اوسکار گروئنِنگ کی عمر اس وقت 94 برس ہے اور انہیں یہ سزا جرمنی کے شہر لیُونے بُرگ میں، جہاں وہ رہتے ہیں، ایک صوبائی عدالت نے آج بدھ پندرہ جولائی کے روز سنائی۔ عدالتی فیصلے کے مطابق ملزم کے خلاف آؤشوِٹس کے نازی کیمپ میں قریب تین لاکھ واقعات میں انسانی قتل میں معاونت کا الزام ثابت ہو گیا تھا۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ صوبائی عدالت نے اپنے فیصلے میں وفاقی دفتر استغاثہ کو یہ حکم بھی دیا کہ سزائے قید کے فیصلے پر عملدرآمد سے قبل وہ اس امر کا جائزہ بھی لے کہ آیا گروئنِنگ، جن کی صحت بڑھاپے کے باعث بہت اچھی نہیں ہے، اس قابل ہیں کہ وہ یہ سزا کاٹ سکیں۔
مقدمے کی سماعت کے دوران ملزم نے اعتراف کیا تھا کہ وہ نازی دور میں یہودیوں کے قتل عام سے متعلق نہ صرف خود کو ایک ’اخلاقی جرم کا حصہ دار‘ سمجھتا ہے بلکہ اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران کبھی کسی کو قتل نہ کرنے کے باوجود ہولوکاسٹ کا حصہ بھی رہا ہے۔
اوسکار گروئنِنگ کو آؤشوِٹس کے اذیتی کیمپ میں فرائض کی انجام دہی کے حوالے سے بعد ازاں ’آؤشوِٹس کا منشی‘ بھی کہا جانے لگا تھا اور عدالتی کارروائی کے دوران ملزم نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ وہ اس حراستی مرکز میں لائے جانے والے قیدیوں سے، جن میں اکثریت یہودیوں کی ہوتی تھی، چھینی گئی رقوم اور دیگر قیمتی اشیاءگن کر برلن میں قائم SS دستوں کے صدر دفتر کو بھیجتا تھا۔
اس مقدمے میں استغاثہ نے مطالبہ کیا تھا کہ ملزم کو ساڑھے تین سال قید کی سزا سنائی جانی چاہیے، جس میں سے یہ بھی سمجھا جانا چاہیے کہ ملزم 22 مہینے کی قید پہلے ہی کاٹ چکا ہے۔ اس کے برعکس وکلائے صفائی نے مطالبہ کیا تھا کہ ملزم کو بری کیا جانا چاہیے کیونکہ اس نے قانونی حوالے سے قابل تعزیر انداز میں ہولوکاسٹ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اس کے علاوہ اگر وہ قصور وار پایا بھی گیا تو اسے مجرم تو قرار دے دیا جائے تاہم اس کے مبینہ جرم کی نوعیت اور جسمانی صحت کے پیش نظر اسے کوئی سزائے قید نہ سنائی جائے۔
اس کے بالکل برعکس آج سنائے جانے والے فیصلے میں عدالت نے ملزم کو نہ صرف آؤشوِٹس بِرکیناؤ کے نازی کیمپ میں تین لاکھ انسانوں کے قتل میں معاونت کا مجرم قرار دے دیا بلکہ اسے اس سے بھی زیادہ مدت کی سزائے قید سنائی، جس کا کہ استغاثہ نے مطالبہ کیا تھا۔
اوسکار گروئنِنگ نے سن 2005ء میں مختلف جرمن اخبارات کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا، ’’جنوری 1943ء کی ایک رات میں نے پہلی مرتبہ دیکھا کہ آؤشوِٹس میں کس طرح یہودیوں کو زہریلی گیس کے ذریعے ہلاک کیا گیا۔ میں نے گیس چیمبر میں لوگوں کو خوف کی حالت میں چیختے ہوئے سنا تھا۔‘‘
گروئنِنگ ستمبر 1942ء سے لے کر اکتوبر 1944ء تک اس اذیتی کیمپ میں تعینات رہا تھا۔ اس مدت کے دوران سولہ مئی سے گیارہ جولائی 1944ء تک کے عرصے میں نازی رہنما اڈولف ہٹلر کے ایس ایس دستوں نے صرف ہنگری سے ہی قریب سوا چار لاکھ یہودیوں کو جرمن فوج کے زیر قبضہ پولینڈ میں واقع آؤشوِٹس کے اذیتی کیمپ میں پہنچا دیا تھا۔ ان میں سے کم از کم تین لاکھ قیدیوں کو وہاں کے گیس چیمبرز میں ہلاک کر دیا گیا تھا۔
نازیوں کے زیر قبضہ پولینڈ میں آؤشوِٹس بِرکیناؤ کے اذیتی کیمپ میں مجموعی طور پر 1.3 ملین سے زائد انسانوں کو قتل کیا گیا تھا، جن میں اکثریت یورپی یہودیوں کی تھی۔ یہ کیمپ 1940ء میں قائم کیا گیا تھا، جسے ستائیس جنوری 1945ء کے روز سوویت یونین کے فوجی دستوں نے آزاد کرایا تھا۔
گروئنِنگ کے خلاف مقدمے میں ہولوکاسٹ کے دوران زندہ بچ جانے والے ایک درجن سے زائد سابقہ قیدیوں نے، جو شریک مدعی بھی تھے، عدالت میں باقاعدہ اپنے بیانات بھی قلمبند کرائے تھے۔ اس مقدمے میں اوسکار گروئنِنگ کا ایک اہم جملہ یہ بھی تھا، ’’جو کچھ آؤشوِٹس میں ہوا، اس میں کسی کو بھی حصہ نہیں لینا چاہیے تھا۔‘‘