نتھیا گلی کی سلامتی بھری شامیں اور کابل کی اداس فضائیں
6 نومبر 2020عقیدوں اور یقینوں سے دور بہت دور ایک دنیا ہے، جہاں کی فضاؤں میں مکالمے کی سرمست ہوائیں چلتی ہیں۔ فکر وخیال کی تتلیاں آزاد اڑتی ہیں اور آرزوئیں رقص کرتی ہیں۔سر شام تجسس کا یہاں الاؤ دہکتا ہے تو دور پہاڑوں پر پڑی علم کی برف پگھلنے لگتی ہے۔ فہم کا پانی بہتا ہوا آتا ہے اور فرسودگی کے جالوں کو بہاتا ہوا لے جاتا ہے۔ انکار اور اقرار ایک ہی گھاٹ پر بیٹھ کر گیت گاتے ہیں۔ تجربے اور مشاہدے کی پوٹلیاں اٹھائے کچھ سادھو آتے ہیں اور نوجوانوں کو علم کا اسمِ اعظم بتاکر چلے جاتے ہیں۔
یہ اسمِ اعظم پڑھتے ہیں اور عمر بھر کے لیے جستجو کے ایک نئے سفر پر نکل جاتے ہیں۔ ایک سفر، جس میں طالب علم بالآخر یہ جان لیتا ہے کہ وہ نہیں جانتا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے بات کھلتی ہے اور علم کا وزن محسوس ہونے لگتا ہے۔ اتنا کہ کندھے جھک جاتے ہیں، لہجے سنبھل جاتے ہیں اور آوازوں میں متانت بھری خاموشی اتر آتی ہے۔ انجامِ کار بولنے سے زیادہ سننے کا حوصلہ پیدا ہوجاتا ہے۔
پنجاب کی اسمبلی کے ارکان اس بات پر سر جوڑے بیٹھے تھے کہ جو لوگ مقدس ہستیوں کے نام کے ساتھ رض نہیں لگاتے، ان کی سزا کیا ہونی چاہیے۔ شہری نعرے لگاتے ہوئے ڈاکٹر عبدالسلام کی تصویروں پر کالک مل رہے تھے۔ کراچی کے بھرے بازار میں ایک سنی عالمِ دین کو قتل کیا چکا تھا۔ عقیدے کا اظہار کرنے والے شیعہ علمائے کرام محفوظ پناہ گاہیں ڈھونڈ رہے تھے۔ بلوچستان سے پیدل نکلا ہوا طالب علموں کا ایک لٹا پھٹا قافلہ لاہور پہنچ کر تعلیم کا سوال کر رہا تھا۔ پشاور میں ڈاکٹر شہاب خٹک کو اس وجہ سے قتل کیا جا چکا تھا کہ وہ بغیر سوچے سمجھے ایک بد عقیدہ ماں کے گھر پیدا ہو گئے تھے۔ اخبار نویس بسکٹ کے اشتہارات میں فحاشی اور عریانی کی نشاندہی کر رہے تھے۔ڈرامہ نگار خواتین کو آزاد و مختار دیکھ کر بہت فکر مند ہو گئے تھے۔ریاست کے چھاپے خانوں میں غداری والی سندوں کی اشاعت تیز ہو گئی تھی۔ فرانس میں ہونے والی خاکہ سازیوں کی مہم امتِ مرحومہ کے تدبر کا امتحان لے رہی تھی۔ شیزوفرینیا جیسے امراض میں مبتلا قابلِ رحم مریضوں کا علاج ڈاکٹر کی بتائی گولی کی بجائے بندوق میں چڑھائی ہوئی گولی سے ہو رہا تھا۔
سلامتی فیلو شپ آنکھ کے چھوٹے سے کینوس پر امن کا بڑا سا ایک خواب پینٹ کرنے کی مہم ہے۔ اس مہم میں رنگ کسی کے ہوتے ہیں، خواب کسی کا ہوتا ہے، کینوس کسی کا ہوتا ہے۔ کسی کا برش اور کسی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ سب مل ملا کے رواداری کے خاکے میں رنگ بھرتے ہیں۔دراصل یہ سیکھنے سکھانے کا دو طرفہ سلسلہ ہے۔ جو سکھانے جاتے ہیں، سیکھ کر آجاتے ہیں۔ جو سیکھنے جاتے ہیں، سکھا کر آ رہے ہوتے ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہوا، مگر سکھانے والے بازی لے گئے۔ شہر میں منافرت کی ہوائیں جتنی منہ زور تھیں، پہاڑوں پر سوالوں کی شدت اتنی زیادہ تھی۔سمجھ نہیں آئی کہ زمانہ کچھ پوچھ رہا تھا یا کچھ بتا رہا تھا۔ نئی پود بڑی ہو گئی ہے یا پرانی چھوٹی ہو گئی ہے۔
سکردو کی ایک لڑکی لاہور میں پڑھتی ہے۔ پدر سری معاشرے میں سائیکل چلاتی ہے اور ہر وقت مسکراتی ہے۔ کہتی ہے، مجھے یونیورسٹی جانا ہو تو میں بائیکیا ایپ کے ذریعے موٹر سائیکل منگواتی ہوں۔ مرد آتے ہیں، میں بیٹھ کر چلی جاتی ہوں۔ یہ میرا شاٹ ہے جو میں کریز سے دو قدم آگے نکل کر کھیلتی ہوں۔ضروری تو نہیں کہ میں بات کر کے ہی لوگوں کو سمجھاتی رہوں۔ میں بہت خاموشی سے کسی سچائی کی جانب اشارہ بھی تو کر سکتی ہوں۔ میں ہفتے میں بیس مردوں کے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھتی ہوں۔ان سے کوئی بات نہیں ہوتی، مگر میں جانتی ہوں کہ مجھے اتارنے کے بعد یہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوتے ہوں گے۔ ہم اور کر بھی کیا سکتے ہیں سر؟ بس سوچنے پر مجبور ہی تو کر سکتے ہیں۔ کوئی سوچنے پر مجبور ہوجائے تو ٹھیک بات کی طرف نکلنے والے راستے تو اپنے آپ نکل آتے ہیں۔ اِس لڑکی سے میں نے مزاحمت کے باب میں ایک نیا سبق سیکھا۔
شام اتررہی ہے اور ہم نتھیا گلی کے جنگلوں میں قدیم وقتوں کی پگڈنڈیوں پر سے گزر رہے ہیں۔ پیس ایجنٹ کا عنوان پشت پر سجائے لڑکے لڑکیاں ہنستے کھیلتے جھومتے گاتے چلے جارہے ہیں۔کوئی تصویر کھینچ رہا ہے تو کوئی آواز کس رہی ہے۔کوئی مصرع پھینک رہی ہے تو کوئی انترہ اٹھا رہا ہے۔ مووی تجویز ہو رہی، کسی سیریز پر بات ہو رہی ہے اور کتابوں کے نام بتائے جا رہے ہیں۔ پشاور سے آیا ہوا یک جوان مجھے مذہب اور ثقافت کا تصادم سمجھا رہا ہے۔ امن کے کچھ پرستار بڑے سے تھیلے لیے چل رہے ہیں اور راستے سے شاپر اور پلاسٹک کی بوتلیں اٹھا رہے ہیں۔ ایک لڑکے نے پانی کی دو باتلیں اور چپس کے کچھ ریپر اٹھا کر تھیلے میں ڈالے تو پاس سے گزرتی ہوئی لڑکی نے کہا، ماحولیات کو جتنا نقصان انسان نے پہنچایا ہے شاید ہی کسی نے پہنچایا ہو۔ لوگ پہاڑوں میں پلاسٹک کی چیزیں پھینک جاتے ہیں اور احساس نہیں کرتے کہ انسان اس کی قیمت پانچ سو سالوں تک چکائیں گے۔ خود گند کرتے ہیں پھر کہتے ہیں گرمی بڑھ گئی ہے، ہوا بگڑ گئی ہے، موسم خراب ہو گیا ہے، پانی ختم ہو رہا ہے۔ تو بھئی کس نے کیا ہے یہ سب؟ خود ہی تو کر رہے ہو!
ہم تھکے ہارے نتھیا گلی کے اُس کلیسا پر کھڑے ہیں جس کا ذکر باچا خان کی سوانح حیات میں ملتا ہے۔ پانچ نوجوانوں پر مشتمل قافلے کی آخری جوڑی پاس سے گزرتی ہے تو ایک سوال سنائی دیتا ہے، اظہار رائے کی کوئی حد بھی ہوتی ہے یا نہیں؟ دوسری آواز آتی ہے، نہیں کوئی حد نہیں ہوتی۔ تیسری آواز آتی ہے، خدا سے لے کر انسان تک ہر چیز پر بحث ہو سکتی ہے سوال اٹھ سکتا ہے۔ آس پاس ٹہلتے چہلتے جو آخری آواز میرے کان میں پڑتی ہے وہ یہ ہے، فریڈم آف ایکسپریشن کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ جس چیز کا تم پوچھ رہے ہو ناں، وہ فریڈم نہیں ہے، وہ تو بدتمیزی ہے۔ بدتمیزی کی کوئی حد تو کیا اس کی تو سرے کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی۔ بدتمیزی کا علاج یہ ہے کہ اس کو کوئی امپورٹینس مت دو بس۔ جب ہم کسی بدتمیز کے منہ لگتے ہیں تو ہم بیسکلی اس کی بات کو امپورٹینس دے رہے ہوتے ہیں۔ راہ چلتے کان میں پڑتی ان آوازوں نے مجھ پر مکالمے کی ایک نئی جہت کھول دی۔
قریب قریب نقطہ انجماد کو چھوتی ہوئی شام اتر چکی ہے۔ تاروستار کی دھن پر اور طبلے کی تھاپ پر زندگیاں رقص کر رہی ہیں۔ مختلف نسلیں اور زبانیں، عقیدے اور نظریے یہاں بے خودی میں جھوم رہے ہیں۔ اپنے وقت پر طبلہ و تار خاموش ہوئے تو جذبات تھم گئے اور حواس واپس آنے لگے۔ سچل سرمست کی سرزمین سے آئی ہوئی ایک ہندو طالبہ نکلی اور ہانپتی کانپتی میری طرف آئی۔ بولی، میرا ایک سوال ہے آپ سے۔ شادی کے لیے ہمیشہ کسی غیر مسلم کو ہی مسلمان ہونا پڑتا ہے، مسلمان کیوں اپنا مذہب نہیں بدلتا؟ یہ مذہبِ اسلام کی کوئی خاصیت ہے یا پھر جبر کا کوئی تصور اس کے پیچھے کھڑا ہے؟ اچانک سے سامنے والے اس سوال نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے کہا، یہ سوال تو نہیں تھا، یہ تو نقطے کی کوئی بات تھی جو مجھے کچھ سوچنے پر مجبور کر رہی ہے۔
کھلے آسمان کے نیچے اور اونچے پہاڑوں کے بیچ دہکائے ہوئے آتش دانوں کے گرد لوگ جمع ہو چکے ہیں۔حضرتِ مسیح کا ایک پیروکار قہوے کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہہ رہا ہے، ایک اچھا شہری ہونے کے لیے یہ کیوں کافی نہیں ہے کہ ہم اپنے ملک سے محبت کریں یا اس کی خدمت کریں۔ اس کے لیے کسی پڑوسی ملک سے نفرت کا اظہار کرنا کیوں ضروری ہے؟ اپنے عقیدے سے محبت کا اظہار ہم کسی کے عقیدے کو غلط ثابت کرکے ہی کیوں کرتے ہیں؟ مسیحی نوجوان جب سوال کی صورت میں بات کھول رہا تھا تو برابر والے آتش دان کے پاس رقص پر بحث ہورہی تھی۔ ایک زود گفتار نے کہا، گفتگو، تحریر، اداکاری، شاعری اور پینٹنگ کے ذریعے ہم جذبات کا اظہار کرتے ہیں، رقص کرکے بھی یہی کچھ کرتے ہیں۔ کوئی شاعری کے ذریعے اچھے سے اظہار کرتا ہے کوئی موسیقی کے ذریعے کرتا ہے۔ کوئی الفاظ میں بات کرتا ہے کوئی اشاروں میں کرتا ہے۔ جو یہ سب نہیں کر پاتا تو وہ رقص کر لیتا ہے۔ قدرت نے آپ کو فکشن لکھنے کی صلاحیت دی ہے تو آپ کا کیا کمال ہے۔ کسی دوسرے کو رقص کی صلاحیت دی ہے تو اس میں اس کی کیا غلطی ہے۔ وہ چیز غلط ہو ہی نہیں سکتی جو سُر میں ہو اور دھم میں ہو۔ کیا کہنے صاحب، کیا کہنے۔ اتنی الجھائی ہوئی بات اس جوان نے کتنی سہولت سے کہہ دی ہے۔
یوگا کے آسن آزمائے ہوئے کچھ جوان زمین پر دھونی رما کے بیٹھے ہیں۔مسلمان نے کہا، فرانس میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔ کیا ہم سب کو مل کر اس کی مذمت نہیں کرنی چاہیے؟ ہندو نے کہا، میری دل آزاری نہیں ہوئی مگر میں تمہاری آواز میں اپنی آواز ضرور ملانا چاہوں گا۔مسیحی نے کہا، پاکستان کے نصابِ تعلیم میں بائبل جیسی کتابوں کے بارے میں جو رائے درج ہے، کیا وہ دل آزاری نہیں ہے۔ کیوں نہ ہم پہلے مل کر اپنے نصابِ تعلیم کی مذمت کر لیں؟ اگر ہمارا نصاب دوسرے مذاہب کے متعلق غیر مناسب رائے دے کر دل آزاریاں کرے گا تو ہم دنیا سے شکایت کیسے کر پائیں گے؟ یہ سن کر سکھ نے مسلمان سے کہا، کیا کہتے ہو؟ مسلمان نے کہا، بات تو ویسے ٹھیک ہے۔ اسی اثنا میں خبر آئی کہ پشاور کی ایک مسجد میں دھماکہ ہوا ہے۔ہر آنکھ میں ایک جیسی اداسی تھی۔ کلمے کتنے ہی مختلف ہو جائیں، اداسی کا قبیلہ ایک ہی رہتا ہے۔ سب نے ایک ہی خدا کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھائے، مرنے والوں کے لیے دعا کی۔بے شک انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب ہے!
سلامتی کے پیامبر پہاڑوں پر دھیان اور گھیان کی منزلیں پوری کرکے جہانِ خراب کی طرف چل دیے ہیں۔ یہاں ایک مسیحی ماں عدالت کے احاطے میں بے ہوش پڑی ہے۔اس کی تیرہ سالہ بیٹی کا مذہب بدل کر ایک چالیس سالہ خوش عقیدہ شخص نے اپنے نکاح میں لے لیا ہے۔ خوشاب کے ایک بینک سے ایک جوانِ رعنا کی لاش نکلی ہے۔ اسے بنامِ خدا قتل کرنے والے سکیورٹی گارڈ کو کچھ لوگ ہیرو کی حیثیت سے دیکھ رہے ہیں۔ کابل یونیورسٹی میں کچھ لوگ ایک طرف سے داخل ہوئے ہیں اور فائرنگ کرتے ہوئے دوسری طرف سے نکل گئے ہیں۔اب وہاں خون آلود کتابیں ہیں، سہمی ہوئی زندگی ہے اور جابجا بکھرے ہوئے خواب ہیں۔ درس گاہ کے دروازے پر ایک لڑکی کی لاش رکھی ہے۔ساتھ ہی سیل فون کی سکرین پر ایک پیغام مسلسل آرہا ہے۔ جانِ پدر کجا ہستی؟
لوگ کہہ رہے ہیں اس کا مطلب ہے، میری بچی تم کہاں ہو؟ نہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عقیدوں اور یقینوں پر جہاں انسانی جان کو اہمیت حاصل ہو گی، شادمانی کی وہ سرزمین ابھی کتنی دوری پر ہے؟ یعنی چراغِ طور جلاؤ کہ بہت اندھیرا ہے۔